مضامین

130 واں آئینی ترمیمی بل کیوں؟

تحریر:سید سرفراز احمد

کہا جاتا ہے گجراتی تاجرین تجارت میں کافی ماہر ہوتے ہیں۔اور اس کا تجربہ بھی ہمیں ہوا ہے۔لیکن گجراتی تاجرین ہی چالاک نہیں ہوتے بلکہ گجراتی سیاست داں بھی بہت چالاک ہوتے ہیں۔جس کی اچھی خاصی مثال موجودہ بھاجپا کی گجراتی جوڑی نریندر مودی اور امیت شاہ کے روپ میں دیکھی جاسکتی ہے۔

 

آج لوک سبھا میں جب امیت شاہ 130 واں آئینی ترمیمی بل پڑھ کر سنا رہے تھے۔اور کہہ رہے تھے اگر کوئی وزیر یا وزیر اعلیٰ یا وزیر اعظم تیس دن سے زائد جیل میں کاٹتا ہے تو اکتیس ویں دن اس کو اپنے عہدے سے ہٹ جانا ہوگا۔

 

اسی دوران حزب اختلاف کے قائدین نے ہنگامہ برپا کیا۔اور اس بل کی کاپیاں پھاٹ کر پھینکی گئی۔بلکہ امیت شاہ کے منہ پر بھی ماری گئی۔

 

جی ہاں دراصل موجودہ حزب اقتدار نے ایک نیا بل لانے کا منصوبہ بنایا ہے۔جس سے وہ سیاسی مجرم کو اس کی مستقل سزا دینے جارہی ہے۔جو اوپر بیان کی گئی۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس بل کو اچانک لانے کی آخر کیا ضرورت پڑگئی؟اور یہ بل کیوں لایا جارہا ہے؟

 

یہ ہم سب کو پتہ ہے کہ بھاجپا یعنی این ڈی اے جو نتیش اور نائیڈو کے سہارے چل رہی ہے۔اگر یہ سہارا نہ بنتے تو یہ رینگنے کے بھی قابل نہیں ہوتے۔نتیش اور نائیڈو سیاست میں بڑے ہی چانکیہ مانے جاتے ہیں۔بلکہ تجربہ بھی رکھتے ہیں۔

 

لیکن 2024 کے اقتدار کے بعد سے ان دونوں نے بھاجپا کی یوں کہے بھی تو غلط نہ ہوگا کہ گجراتی جوڑی نریندر مودی اور امیت شاہ کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں۔کیونکہ ہر بار ان کی تائید کے لیئے بھاجپا کو پہلے انھیں خوش کرنا پڑتا ہے۔پھر وہ خوش ہوتی ہے۔لیکن ہر بار یوں ہورہا ہے کہ آپ اپنے دام میں صیاد آرہا ہے۔

 

بھاجپا اپنی دو بیساکھیوں کو گرفت جکڑنے کے لیئے ایک جال بن رہی ہے۔اور ساتھ ہی ساتھ دیگر حزب اختلاف کو بھی اس جال کا حصہ بنانے کی فراغ میں ہے۔اسی لیئے اس 130 واں آئینی بل لانے کی کوشش کررہی ہے۔

 

اس بل کو لانے کی تین بڑی اہم وجوہات ہوسکتی ہیں۔ ایک تو "ووٹ چوری”مہم کو مل رہی مقبولیت سے عوام کی توجہ ہٹانے کا کام کرنا چاہتی ہے۔کیونکہ اس مہم سے توجہ ہٹانے کے لیئے طرح طرح کے پینترے استعمال کیئے گئے لیکن دال نہیں گلی۔

 

دوسرا نائب صدر جمہوریہ کا 9 ستمبر کو انتخاب ہونے والا ہے۔اور یہ بل اس انتخاب سے قبل ہی لایا جارہا ہے۔کیونکہ بھاجپا کو خدشہ ہے کہ نتیش اور نائیڈو کہیں انڈیا اتحاد کے امیدوار سدرشن ریڈی کی تائید نہ کردے۔اگر یہ تائید کرتے ہیں تو اس بل کے ذریعہ ان دو اتحادیوں کو بچھاۓ جارہے جال میں پھنسایا جاسکتا ہے۔

 

تیسرا بھاجپا کو ہر بار تائید کے لیئے ان دونوں بیساکھیوں کی جھولیاں بھرنا پڑ رہا ہے۔اس سے چھٹکارہ پانے اور ان کی زبان کاٹنے کے لیئے اس بل کو لایا جارہا ہے۔کیونکہ اطلاع ملی تھی کہ نائیڈو اپنے وزراء کے ساتھ دہلی جانے والے ہیں۔تاکہ نائب صدارتی انتخاب سے پہلے پھر سے بوریئے بھر لیئے جاۓ۔شائد مودی اور شاہ یہ بوریئے بھرتے بھرتے تھک چکے ہیں۔

 

لہذا یہ سیاسی کھیل کھیلا جارہا ہے۔اگر کوئی بھی اتحادی بھاجپا سے آنکھ میں آنکھ ملا کر بات کرنے کی کوشش کرے گا تو بھاجپا کے پاس یہ قانون ہوگا کہ وہ اس کو تیس کیا پچاس دن بھی جیل میں ڈال سکتی ہے۔اور پھر وہ اس قانون کی زد میں آکر اسے اپنی وزارت اپنے وزیر اعلی یا دیگر

عہدوں سے ہٹنا پڑے گا۔

 

کون نہیں جانتا ہے کہ سیاست میں ہو اور جیل کی ہوا بھی نہ کھاۓ۔یہ تو ممکن ہی نہیں۔سیاست داں اور جیل کا تعلق میاں اور بیوی جیسا ہوتا ہے۔بالکل ویسے ہی حزب اقتدار آج اگر سیاسی سازشوں کے ذریعہ حزب اختلاف کو جیل بھیج سکتا ہے تو یہ دور واپس پھر پلٹ کر آہی جاتا ہے۔ویسے ہی یہ قانون اگر آج حزب اختلاف کے خلاف استعمال کیا جاۓ گا تو کل کو بھاجپا بھی حزب اختلاف میں بیٹھے گی۔لیکن بھاجپا کی یہ جوڑی آج کا اور ابھی کا سوچتی ہے۔

 

اہم بات یہ ہے کہ اس قانون کی گرفت سے وزیر اعظم بھی بچ نہیں سکیں گے۔لیکن جو مرکزی اقتدار میں ہوگا تمام سرکاری ایجنسیز یا ادارے یا پولیس سب سرکار کے اشاروں پر کام کریں گے۔جیسا بیرسٹر اسد الدین اویسی نے سوال کیا کہ کیا پولیس وزیر اعظم کو گرفتار کرے گی؟انھوں نے الزام لگایا کہ سرکار پولیس اسٹیٹ قائم کرنے کی کوشش کررہی ہے۔

 

اگر اس بل کو منظوری مل جاتی ہے تو حزب اختلاف سے زائد بیساکھیوں کی پریشانیوں میں اضافہ ہوگا۔یا اگر بیساکھیاں دانش مندی کا مظاہرہ کرتی ہے تو یہ بل مودی اور شاہ کے گلے کی ہڈی بھی بن سکتا ہے۔

متعلقہ خبریں

Back to top button