مضامین

کانوڑ یاترا اور مذہبی شناخت – کیا ہندو مسلم کے لئے قانون کے پیمانے الگ الگ ہیں؟

تحریر:سید سرفراز احمد

ہمارے ملک کا ماضی بہت شان دار رہا ہے۔جس کی اہم خوبی یہی تھی کہ یہاں کثیر المذاہب کے لوگ شیر و شکر کی طرح رہا کرتے تھے۔ایک دوسرے کے مذاہب یا تہذیب و ثقافت کو قدر کی نگاہ سے دیکھنا،دکھ سکھ میں شریک ہونا،بلا تفریق مذہب و ملت انسانی خدمت کے کاموں کو انجام دینا یہ سب اس ملک کا حسن تھا۔لیکن وقت کے ساتھ سب بدلتا گیا۔آج نفرت کا بول بالا ہے۔ایک ہی ملک کے واسی ایک دوسرے کے مذاہب کا کوئی پاس و لحاظ نہیں رکھ رہے ہیں۔ملک کی صورت حال اس قدر ابتر ہوچکی ہے کہ کہیں نام پوچھ کر تو کہیں مذہب پوچھ کر ماردیا جاتا ہے۔حتیٰ کے انسانی خدمت کے ٹھیکیدار بھی مذہب پوچھ کر ایک غریب کو ایک وقت کا کھانا دینے سے انکار کردیتے ہیں۔فقیر کو خیرات کے عوض جبراً غیر مذہبی نعرہ لگانے پر مصر کیا جاتا ہے۔لیکن فقیر بھی اپنے مذہب سے والہانہ محبت کا اظہار کرتے ہوۓ آگے بڑھ جاتا ہے۔ان سب کا محور و مرکز دراصل نفرت کی وہ آگ ہے جو گذشتہ گیارہ سال پہلے شروع ہوئی۔

 

اصل بات یہ بھی ہے کہ یہ وہی متشدد گروہ ہے جو اس ملک کی آزادی سے قبل بھی اسی کام پر لگا ہوا تھا۔آج وہ برسر اقتدار میں رہ کر اس کام کو تقویت پہنچانے کا کام کیا ہے۔اسی نفرت کو سیاسی سودا گروں نے یہاں کی اکثریت کے ذہنوں میں حد درجہ پیوست کردیا جس سے ہمارے ملک کے موجودہ سماج کی صورت حال ایک تشویش ناک دور سے گذر رہی ہے۔یہ کام دراصل سماج میں پھوٹ ڈال کر اور اپنی سیاست کو چمکانے کے لیئے کیا جارہا ہے۔بلکہ اسی نفرت کو نہ صرف سماج تک محدود رکھا گیا بلکہ اپنی سیاسی طاقت کی بناء پر سرکاری اداروں کو بھی اپنے قبضہ میں رکھا جارہا ہے۔تب ہی سرکاری ادارے حکومتوں کے اشاروں پر کام کرنے لگے ہیں۔جن سرکاری اداروں کو دستور اور جمہوریت کے ساتھ چلنا تھا وہ آج ان سب کو بالاۓ طاق رکھ کر سرکار کی کٹھ پتلی بن کر کام کرنے لگے ہیں۔

 

مذہبی تہوار ہو یا جلسے جلوس جس سے صرف خوشیاں سمیٹی جاتی ہیں۔اگر وہی تہوار اور جلسے جلوس آج کے دور میں دیکھیں گے تو ایک الگ ہی منظر سامنے آۓ گا۔چونکہ اب ہمارا ملک ہندوتوا کے نظریہ کی طرف اپنے پیر پسار چکا ہے۔بلکہ یہ کہنے میں بھی کوئی حرج نہ ہوگا کہ ہندوتوا نظریہ اس ملک کی عوام پر غیر محسوس طریقہ سے نافذ العمل ہوچکا ہے۔بس اعلانیہ باقی رہ گیا ہے۔ہم دیکھ رہے ہیں آۓ دن جب کبھی بھی کوئی تہوار یا جلوس کا دن آتا ہے تو معصوم عوام میں ایک خوف کا سایہ منڈلانے لگتا ہے۔حالانکہ ایسا نہیں ہونا چاہیئے۔لیکن ایسا ہورہا ہے۔اور ایسا اس لیئے ہورہا ہے کہ واقعتاً تہوار جلوس اب امن و امان کا درس نہیں دے رہے ہیں۔ اور نہ ہی اخوت و بھائی چارے کا درس رے رہے ہیں۔بلکہ ایسے خوشی کے موقعوں پر اقلیتوں کی تجارت گاہوں،مساجد،مدرارس پر حملوں کو تہوار سمجھا جارہا ہے۔عوام میں یہ احساس پیدا ہوچکا ہے کہ ظلم کا کوئی وقت مقرر نہیں ہے۔بلکہ یہ کبھی بھی کسی بھی روپ میں آمنے سامنے آسکتا ہے۔ان تمام رویوں کو دیکھ کر یہ بات سامنے آرہی ہے کہ ہندوتوا نظریہ اپنی پوری شدت کے ساتھ آخری کے مراحل میں داخل ہوچکا ہے۔اب یا تو ظلم کے مراحل اقلیتوں کے لیئے اس ملک میں ایک بڑی آزمائش بن کر رو نما ہوسکتے ہیں۔یا پھر ابھرا تھا بڑی شان سے اب ڈوب رہا ہوں کے مصداق ہی ہوسکتا ہے۔

 

کانوڑ یاترا شروع ہوچکی ہے۔جو 23 جولائی کو ختم ہوگی۔اترپردیش اور اترا کھنڈ کی سرکاروں نے کانوڑ یاتریوں کی روٹ پر دکانداروں کو لازمی کیو آر کوڈ اور اپنے نام کی تختی لگاکر اپنی مذہبی شناخت ظاہر کرنے کا فرمان جاری کیا تھا۔جس کو عرضی گذاروں نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔سپریم کورٹ نے ریاستی سرکاروں سے ایک ہفتے میں جواب طلب کیا ہے۔جس کی اگلی سماعت 22 جولائی کو ہوگی۔یہاں دل چسپ بات یہ ہے کہ عدالت عالیہ نے ایک ہفتے کا وقت دے کر ریاستوں کے فیصلے کو برقرار رکھا۔اور جب تک اگلی سماعت ہوتی تب تک کانوڑ یاتراپنے آخری مرحلے میں داخل ہوجاۓ گی۔حالانکہ عرضی گذاروں نے اس حکم پر فوری روک لگانے کی عدلیہ سے اپیل کی تھی۔

 

عرضی گذار دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپوروا آنند کے وکلاء نے استدلال پیش کرتے ہوۓ بتایا کہ ریستورنٹ کے مالکان کو اس طرح زاتی تفصیلات جبراً ظاہر کرنے یا مجبور کرنے کے خلاف سپریم کورٹ پہلے ہی عبوری حکم جاری کرچکی ہے۔جس پر عدلیہ نے حکم دیا تھا کہ کھانے پینے کی جگہوں پر ان کی نجی معلومات ظاہر کرنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔لیکن ان دونوں ریاستوں نے عدلیہ کے اس عبوری حکم کا بھی پاس و لحاظ نہ رکھتے ہوۓ اپنا فرمان جاری کردیا۔کیا یہ سوال ان ریاستوں سے نہیں پوچھا جانا چاہیئے کہ آخر کیوں تجارت میں اپنی مذہبی شناخت کو بتانا چاہیئے؟یہ ریاستی سرکاریں دستور کی کن دفعات کے تحت مذہبی شناخت کو بتانے پر مجبور کررہی ہے ؟بلکہ دستور تو مذہبی آزادی دیتا ہے۔لیکن یہ ریاستیں تجارت کی قانونی دستاویزات کا بہانہ کر مذہبی شناخت کو ظاہر کروارہی ہے۔جو ایک جمہوری ملک کے فرد کی راز داری کے حقوق کی سراسر خلاف ورزی ہے۔جن کا صرف ایک ہی منشاء ہے کہ اس بہانے اقلیتوں کو نشانہ بنایا جاسکے ۔

 

ایک طرف معاملہ مذہبی شناخت کو لے کر ہے۔تو دوسری طرف کانوڑیوں کے رویہ پر سوالات کھڑے ہورہے ہیں۔سوالات نہ صرف کانوڑیوں پر بلکہ پولیس کی جانب داری پر بھی اٹھ رہے ہیں۔گذشتہ یاترا میں بھی ہم نے دیکھا کہ کانوڑیوں نے سڑک پر کس طرح کے ہنگامے کیئے تھے۔اسی طرح کے نظارے ابھی بھی دیکھنے کو مل رہے ہیں۔لیکن ان پر سواۓ سوالات کے کھڑے ہونے کے علاوہ کچھ اور نہیں ہوتا۔کیا ریاستی سرکاروں نے انھیں کھلی چھوٹ دے رکھی ہے؟یا پھر اس طرح کا ظلم وستم ہندوتوا کا حصہ ہے؟کیونکہ کانوڑی چلتے چلتے کبھی کسی دکان کو نشانہ بناتے ہوۓ توڑ پھوڑ کردیتے ہیں۔کبھی کسی غریب کی ہوٹل میں توڑ پھوڑ کرتے ہیں۔تو کبھی شاہراہ پر گذرتی کاروں کو بے بنیاد الزامات عائد کرتے ہوۓ مار پیٹ کرتے ہیں۔

 

ابھی تک شر انگیزی ان ہی کے مذہبی جلوسوں تک محدود تھا۔اب کانوڑیوں نے یہ کھیل راستے پر بھی شروع کردیا۔ان سب میں اہم بات جو دیکھنے کو ملتی ہے وہ یہ کہ ان پر نہ تو سرکار کی گرفت ہوتی ہے نہ ہی قانونی کاروائی۔بلکہ حیران کن بات یہ ہے کہ اس کے برعکس پولیس کی جانب سے انھیں پھول پیش کیا جاتا ہے۔میں آپ کو یاد دلادوں دہلی ہو یا اترپردیش جہاں کے بیش تر مقامات پر جب جمعہ یا عیدین کی نماز کے لیئے پر امن نمازی سڑکوں پر دس منٹ کی نماز ادا کرتے ہیں تو یہی پولیس ظلم کی لاٹھی برساتی ہے۔نماز پڑھ رہے نمازیوں کو صفوں سے اٹھا دیا جاتا ہے۔یہاں یہ بات بھی یاد رہے کہ سڑکوں پر نماز پڑھنے کے ہم بھی قائل نہیں ہے۔بلکہ مسلمان ایسی نماز پڑھیں جس سے خشوع و خضوع حاصل ہوں۔اور کسی کو ہم سے تکلیف نہ پہنچیں۔یہ دین اسلام کی تعلیمات ہے۔ذرا سوچیں اگر ہم نماز بھی ہنگامی طریقے سے ادا کریں گے تو کیا ہماری نماز میں خشوع و خضوع آۓ گا؟اس پر ہم تمام کو بھی غور و فکر کرنا چاہیئے۔

 

لیکن سوال یہ ہے کہ جو قانون سب کے لیئے یکساں ہونا چاہیئے اس میں تضاد کیوں؟جب پر امن نمازیوں پر ظلم کی لاٹھی برسائی جاسکتی ہے تو شر انگیزی پھیلانے والوں پر کیوں نہیں؟آج کانوڑی قومی شاہ راہ کو جام کیئے ہوۓ ہیں۔وہ بھی دس پندرہ منٹ کے لیئے نہیں بلکہ یاترا کے ختم ہونے تک اور یہ روز کا معمول ہے۔پھر آج وہ پولیس کہاں ہے جب معصوم نمازیوں پر ظلم کے ڈنڈوں سے مار رہی تھی؟اور وہ سرکاری اعلان بھی نہیں ہوتا ہے جس طرح سڑکوں پر نماز کی پابندی کا سرکاری اعلان ہوا تھا۔کیا سرکار اور پولیس کا یہ جانب دار سلوک نہیں ہے؟کیا ہندو مسلم کے لیئے قانون کے پیمانے الگ الگ ہیں؟

 

یہی نہیں بلکہ رام نومی جلوس ہو یا دیگر مذہبی تہواروں میں شر انگیزی پھیلانا ان کا معمول بن چکا ہے۔گنگا جمنی تہذیب کا لبادہ اوڑھ کر مسلمان اگر یکطرفہ اپنا خون بھی دے دے گا تو یہ نفرت کا کھیل ابھی ختم نہیں ہونے والا ہے۔کیونکہ یہ وقت ہماری سخت آزمائشوں کا ہے۔لیکن ہم اپنا جائزہ لیئے بناء ہی گنگا جمنی تہذیب میں اتنے آگے نکل گئے کہ ان ہی شر انگیزی پھیلانے والوں کی خدمت میں پھول پیش کرتے ہوۓ شربت پلانے سے باز نہیں آتے۔سوال یہ کہ ہم کب تک دیش بھکتی ثابت کرنے میں اپنی زندگیوں کو کھپاتے رہیں گے؟اس مادر وطن کے لیئے ہمارے آبا و اجداد نے جن قربانیوں کو پیش کیا وہ ہمارے لیئے کافی ہیں۔بس ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ ہم اپنے وطن سے حد درجہ محبت کرتے ہیں۔اور امن و اماں کے ہم ہمیشہ پیامبر بنے رہیں گے۔لیکن حد سے تجاوز نہیں کریں گے۔بلکہ ہم وطن سے محبت کے تقاضوں کو پورا ضرور کریں گے۔لیکن کسی کو وطن سے محبت ثبوت پیش کرنے کی زحمت نہ کریں۔

 

یہ بات یقینی طور پر کہی جاسکتی ہے کہ جو بھی شر پسند عناصر پوری شدت کے ساتھ شر انگیزی پھیلاتے ہیں۔انھیں سرکاری پشت پناہی حاصل ہوتی ہے۔اسی کھلی چھوٹ میں یہ کچھ بھی کرنے سے پس و پیش کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ابھی چار روز قبل اترپردیش کے بریلی میں ایک سرکای ٹیچر رجنیش گنگوار جو دعاعیہ تقریب میں بچوں کو ہندی میں ایک نظم پڑھاتے ہوۓ ایک اخلاقی درس دیتے ہیں۔ جس کے بول کچھ اس طرح ہیں ,کانوڑ لینے مت جانا۔تم گیان کےدیپ جلانا۔مانوتا کی سیوا کرکے۔سچے مانو بن جانا,اس نظم کا ویڈیو سوشیل میڈیا پر وائرل ہے۔ہندو توا تنظیموں کی جانب سے ہنگامہ کھڑا کردیا گیا۔جانب دار میڈیا بھی بہتے پانی میں ہاتھ دھو رہا ہے۔معلوم یہ ہوا ہے کہ یہ ٹیچر کا تعلق اے بی وی پی تنظیم سے ہے۔ایک ٹیچر کی صاف ستھری نیت پر واویلا مچایا جارہا ہے۔اس نے صرف اپنے طلبہ کو کانوڑ یاترا کے بجاۓ گیان کے دیپ جلانے کی بات کہی۔تو ذرا توقف کریں اور ٹھنڈے دماغ سے سوچیں کہ ہندو توادیوں کے دماغ کی کیا حالت ہے۔اور وہ جنھیں قومی میڈیا کہنے میں بھی شرم آتی ہے کہ کس طرح سماج کو تقسیم کرنے کے کام پر لگے ہوۓ ہیں۔اب فیصلہ آپ کو کرنا ہے کہ ایسے وقت میں ہمیں کیا کرنا اور کیا نہیں کرنا چاہیئے۔

 

وطن عزیز کے حالات یکسر بدل چکے ہیں۔بولنے لکھنے کھانے پینے کی آزادی بلکہ ایک آزاد ملک کی سب سے بڑی اقلیتی آبادی کو جکڑ کر رکھ دیا گیا۔اس ملک کی کثیر آبادی کو نفرت کے بول سکھا دیئے گئے۔یہ وہی بیج تھا جب گیارہ سال پہلے بویا گیا تھا۔آج وہ عملی طور پر اپنے پورے شباب پر ہے۔اگر چہ حالات یہی رہیں گے تو اس ملک کی آنے والی نسلوں کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑسکتا ہے۔ابھی بھی وقت ہے جو بگڑا ہے اس کو سنوارنے کا کام کریں۔قانون کو مذاہب میں تفریق نہ کریں۔بلکہ مساویانہ و منصفانہ طریقے کو اپنائیں۔ یہی اس ملک کی خوب صورتی ہے۔اور یہی اس کا بہتر مستقبل ہے۔

متعلقہ خبریں

Back to top button