نیشنل

5 سال قید، ٹرائل اب بھی نامکمل — دہلی فسادات کیس میں عمر خالد، شرجیل اور گلفشہ کی ضمانت پر سپریم کورٹ میں گہما گہمی

سپریم کورٹ نے منگل کے روز 2020 کے شمال مشرقی دہلی فسادات کی مبینہ بڑی سازش کے معاملے میں طلبہ تنظیموں کے قایدین عمر خالد، شرجیل امام، گلفشہ فاطمہ اور دیگر کارکنان کی ضمانت درخواستوں پر سماعت کی۔

 

یہ تمام طلبہ قایدین یو اے پی اے یعنی غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ کے تحت گرفتار ہیں اور طویل عرصے سے جیل میں بند ہیں۔ جسٹس اروند کمار اور جسٹس این وی انجاریا کی بنچ نے فریقِ دفاع کے دلائل سنے جبکہ سماعت چہارشنبہ کو بھی جاری رہے گی۔

 

سخت قانونی بحث کے دوران ملزمین کے وکلاء نے مؤقف اختیار کیا کہ ٹرائل میں غیر معمولی تاخیر ضمانت کے لیے واضح بنیاد بنتی ہے اور سپریم کورٹ کے کئی فیصلے اس کی تائید کرتے ہیں۔ ان کے مطابق ملزمین تقریباً پانچ سال جیل میں گزار چکے ہیں اور یوں وہ سزا کے بڑے حصے کو پہلے ہی بھگت چکے ہیں۔ وکلاء کا کہنا تھا کہ 2698 صفحات پر مشتمل طویل چارج شیٹ میں کہیں بھی یہ نہیں لکھا کہ ملزمین نے حکومت گرانے یا تبدیل کرنے کی کوشش کی؛ بلکہ ان پر لگائے گئے الزامات محض انہیں بدنام کرنے کی کوشش ہیں،

 

جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ استغاثہ کا مقصد ہر ممکن طریقے سے ملزمین کو جیل میں رکھنا ہے۔ وکلاء نے کہا کہ صرف تقاریر کو بنیاد بناکر سازش ثابت نہیں کی جا سکتی، اس کے لیے ٹھوس شواہد درکار ہیں اور استغاثہ ایسے شواہد پیش کرنے میں ناکام ہے۔

 

اسی دوران گلفشہ فاطمہ کی جانب سے پیش ہونے والے سینئر وکیل ابھیشیک منو سنگھوی نے کہا کہ ان کی موکلہ تقریباً چھ سال سے جیل میں بند ہیں۔ 16 ستمبر 2020 کو ایک چارج شیٹ داخل کی گئی، جس کے بعد مسلسل ضمنی چارج شیٹیں داخل کی جاتی رہیں۔ اب تک چار ضمنی اور ایک مرکزی چارج شیٹ درج ہو چکی ہے جبکہ ٹرائل کے مکمل ہونے کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے۔

 

سنگھوی نے کہا کہ بغیر سزا کے کسی شخص کو اتنے طویل عرصے تک جیل میں رکھنا مجرمانہ انصاف کے نظام کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے، یہ سزا سے پہلے سزا دینے کا عمل ہے۔

 

عمر خالد کی جانب سے پیش ہونے والے وکیل کپل سبل نے بتایا کہ عمر خالد گزشتہ پانچ سال تین مہینے سے قید میں ہیں، یعنی 13 ستمبر 2020 سے آج تک مسلسل جیل میں ہیں۔ ان کے خلاف اصل الزام صرف اتنا ہے کہ انہوں نے 17 فروری کو مہاراشٹر میں ایک تقریر کی تھی، جبکہ مزید جو باتیں جوڑی گئی ہیں وہ یہ ہیں کہ وہ ایک واٹس ایپ گروپ کے رکن تھے جس میں انہیں کسی اور نے شامل کیا تھا، اور انہوں نے اس گروپ میں کوئی پیغام بھی نہیں بھیجا۔

 

سبل نے کہا کہ اگر ضمانت مسترد کر دی گئی تو خالد مزید تین سال تک جیل میں رہیں گے، جس کا مطلب ہے بغیر ٹرائل آٹھ سال قید۔ کپل سبل نے یہ بھی کہا کہ ہائی کورٹ نے سماعت میں تاخیر کے ہمارے مؤقف کو نظر انداز کیا۔ پولیس بار بار یہ کہتے ہوئے ٹرائل نہیں شروع ہونے دے رہی تھی کہ تحقیقات ابھی جاری ہیں، جبکہ اصل میں تحقیقات مکمل ہونے کے باوجود چارج پر بحث سے گریز کیا گیا۔

 

سبل کے مطابق 20 اگست کو پولیس نے کہا تھا کہ تفتیش مکمل ہو چکی ہے جبکہ 4 ستمبر کو عدالت نے بھی اسے ریکارڈ کیا، مگر اسی کے اگلے دن ہی دفاع نے بحث شروع کی کیونکہ جب تک تفتیش مکمل نہ ہو چکے، چارج پر بحث ممکن ہی نہیں تھی۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ 17 فروری کو عمر خالد نے امراؤتی میں تقریر کی جبکہ دہلی میں فسادات 23 سے 25 فروری کو ہوئے اور ان دنوں وہ دہلی میں موجود بھی نہیں تھے، اس لیے تقریر کو فسادات سے جوڑنا بے بنیاد ہے۔

 

انہوں نے مزید کہا کہ واٹس ایپ گروپ میں جو دیگر لوگ پیغامات بھیج رہے تھے وہ یا تو ضمانت پر ہیں یا ملزم ہی نہیں جبکہ خالد نے کوئی پیغام بھی نہیں بھیجا تھا۔ سبل نے مزید کہا کہ جس واقعہ میں دو اموات ہوئیں، عمر خالد اس کیس میں نامزد بھی نہیں ہیں، نہ ہی متعلقہ ایف آئی آر میں ان کا ذکر ہے۔ 2016 کی ایک تقریر کے حوالے سے بھی واضح کیا کہ “بھارت تیرے ٹکڑے ہوں گے” والا نعرہ خالد نے نہیں لگایا تھا اور اس سے متعلقہ چارج شیٹ میں بھی ان کا حوالہ موجود نہیں

 

۔ عدالت نے سوال کیا کہ پھر وہ بیان کس نے دیا تھا؟ جس پر سبل نے جواب دیا کہ ممکنہ طور پر کسی اور طالب علم نے۔ اس کے باوجود موجودہ معاملے میں انہی الفاظ کو عمر خالد کے نام سے منسوب کیا جا رہا ہے۔

 

سماعت کے دوران وکیل سدھارتھ دبے نے شرجیل امام سے متعلق کہا کہ 28 جنوری 2020 کو انہیں پولیس حراست میں لیا گیا اور ان کے خلاف وہ تقاریر بنیاد بنائی گئیں جن کے مخصوص حصے عدالت میں چلائے گئے۔ دبے کے مطابق شرجیل پہلے ہی ان تقاریر کے سلسلے میں چلنے والے مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں اور متعدد ایف آئی آر درج ہیں۔

 

لیکن موجودہ ایف آئی آر مارچ 2020 میں درج کی گئی، اُس وقت وہ ایک ماہ سے زیادہ عرصہ سے پولیس حراست میں تھے، اس لیے فسادات کی سازش کا الزام ان پر لگانا غیر منطقی ہے کیونکہ وہ دنگوں کے وقت حراست میں تھے۔ انہوں نے کہا کہ اگر پولیس تقاریر سے آگے کوئی اور ثبوت نہیں پیش کر سکتی، تو صرف تقریر کی بنیاد پر سازش ثابت نہیں کی جا سکتی۔

 

متعلقہ خبریں

Back to top button