نیشنل

ڈاکٹر اور انجینئر اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں چھوڑ کر ملک دشمن سرگرمیوں میں حصہ لے رہے ہیں : عمر خالد اور شرجیل امام کی ضمانت کے کیس میں پولیس کا سپریم کورٹ میں دعویٰ

نئی دہلی: دہلی پولیس نے سپریم کورٹ میں موقف اختیار کیا کہ جب تعلیم یافتہ افراد شدت پسند خیالات اختیار کر لیتے ہیں تو وہ میدانِ عمل میں سرگرم عام شدت پسندوں سے زیادہ خطرناک ثابت ہوتے ہیں۔ پولیس نے دعویٰ کیا کہ ڈاکٹر اور انجینئر جیسے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کا ملک مخالف سرگرمیوں میں شامل ہونا ایک "نیا رجحان” بن چکا ہے۔

 

دہلی پولیس نے 2020 کے فسادات سے متعلق زیرِ حراست سماجی کارکنان عمر خالد، شرجیل امام اور دیگر ملزمان کی ضمانت کی درخواستوں کی سخت مخالفت کرتے ہوئے جسٹس اروند کمار اور جسٹس این وی انجاریا پر مشتمل سپریم کورٹ بنچ سے استدعا کی کہ ضمانت نہ دی جائے۔

 

پولیس کے مطابق 2020 میں شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) اور این آر سی کی مخالفت میں دہلی میں ہونے والے احتجاجات پرتشدد رخ اختیار کر گئے تھے جن میں 53 افراد کی جان گئی۔ اس تشدد کے مبینہ منصوبہ ساز کے طور پر عمر خالد، شرجیل امام، گلفشہ فاطمہ، میرا حیدر، رحمان سمیت دیگر کے خلاف یو اے پی اے اور آئی پی سی کی کئی دفعات کے تحت مقدمات درج کیے گئے اور وہ گزشتہ پانچ سال سے زیرِ حراست ہیں۔

 

ایس وی راجو، اضافی سالیسٹر جنرل، نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ مقدمے میں تاخیر کی ذمہ داری خود ملزمان پر عائد ہوتی ہے اور وہ اسے اپنے حق میں استعمال نہیں کر سکتے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ شرجیل امام نے سی اے اے مخالف تحریک کے دوران اشتعال انگیز تقاریر کیں اور متعلقہ ویڈیوز عدالت میں پیش کیں۔ راجو نے کہا کہ امام انجینئرنگ گریجویٹ ہے اور "آج کال ایک رجحان بن گیا ہے کہ ڈاکٹر اور انجینئر اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں چھوڑ کر ملک دشمن سرگرمیوں میں حصہ لے رہے ہیں۔”

 

انہوں نے مزید کہا کہ یہ احتجاج معمولی نہیں تھے بلکہ دانستہ طور پر پرتشدد رخ دیے گئے تاکہ بین الاقوامی میڈیا میں کوریج حاصل کی جا سکے اور سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورۂ بھارت کو سیاسی مقصد کے لیے استعمال کیا گیا۔ ان کے مطابق احتجاج کرنے والوں کا اصل مقصد حکومت کی تبدیلی، معاشی بدحالی پیدا کرنا اور ملک گیر بے چینی پھیلانا تھا، اور "ایسے تعلیم یافتہ محرکین، زمینی سطح کے شدت پسندوں سے بھی زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔”

 

بدھ کو بھی اس معاملے پر سماعت ہوئی۔ سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے کہا کہ یہ تحریک صرف سی اے اے کی مخالفت تک محدود نہیں تھی بلکہ اس کے ذریعے معاشرے کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی منظم کوشش کی گئی۔

 

 

 

متعلقہ خبریں

Back to top button