نیشنل

فون میں سیٹلائٹ ’لوکیشن ٹریکنگ‘ کو لازمی بنانے پر حکومت کا غور

نئی دہلی: ’سنچار ساتھی ایپ‘ کے حوالے سے اپنے قدم واپس لینے کے بعد اب حکومت سیٹلائٹ کے ذریعہ فون کی لوکیشن ٹریک کرنا چاہتی ہے۔ خبر رساں ایجنسی ’رائٹرس‘ کے حوالے سے ’اے بی پی‘ نے لکھا ہے کہ حکومت ٹیلی کام انڈسٹری کی ایک تجویز

 

پر غور کر رہی ہے جس میں اسمارٹ فون کمپنیوں کو سیٹلائٹ لوکیشن ٹریکنگ فیچر کو فعال کرنا ہوگا۔ حالانکہ ایپل، گوگل اور سیمسنگ جیسی کمپنیوں نے رازداری کے خدشات کا حوالہ دیتے ہوئے اس کی مخالفت کی ہے۔رپورٹ کے مطابق سیلولر آپریٹرز ایسوسی ایشن آف انڈیا (سی او اے آئی) نے حکومت کو تجویز پیش کی ہے کہ اگر حکومت اسمارٹ فون کمپنیوں کو اے-جی پی ایس

 

ٹیکنالوجی کو فعال کرنے کا حکم دے گی، تبھی صارف کے درست لوکیشن کا پتہ چل سکے گا۔ اس ٹکنالوجی میں سیٹلائٹ سگنل کے ساتھ سیلولر ڈیٹا کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے لیے فون کی لوکیشن سروس ہمیشہ آن رہے گی اور صارف کے پاس اسے غیر فعال کرنے کا کوئی آپشن نہیں ہوگا۔واضح رہے کہ ابھی صارف کا لوکیشن معلوم کرنے کے لیے سیلولر

 

ڈیٹا کا استعمال کیا جاتا ہے جو درست لوکیشن نہیں بتا سکتا۔ رپورٹ کے مطابق وزارت داخلہ نے جمعہ (5 دسمبر) کو اس تعلق سے اسمارٹ فون انڈسٹری کے افسران کی ایک میٹنگ طلب کی تھی لیکن فی الحال اسے ملتوی کر دیا گیا ہے۔اسمارٹ فون کمپنیاں ایپل اور گوگل وغیرہ کا کہنا ہے کہ مذکورہ فیصلہ نافذ نہیں کیا جانا چاہیے۔ ایپل اور گوگل کی نمائندگی

 

کرنے والے لابنگ گروپ سیلولر اینڈ الیکٹرانکس ایسوسی ایشن (آئی سی ای اے) کا کہنا ہے کہ ’’پوری دنیا میں ایسا نہیں ہوتا ہے، جہاں ڈیوائس کی سطح پر لوکیشن ٹریکنگ کی جاتی ہو۔ لوکیشن سرولنس کے لیے اے-جی پی ایس ٹکنالوجی کا کہیں استعمال نہیں کیا جاتا۔‘‘ آئی سی ای اے کا کہنا ہے کہ اس تجویز سے لیگل، پرائیویسی، اور نیشنل سیکورٹی

 

سے متعلق کئی خدشات ہیں۔ صارفین میں افسران، جج اور صحافی سمیت ایسے لوگ شامل ہوتے ہیں، جن کے پاس حساس معلومات ہیں۔ لوکیشن ٹریکنگ سے ان کی حفاظت کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔

متعلقہ خبریں

Back to top button