نیشنل

مذہبی عبادات میں لاؤڈ اسپیکر ضروری نہیں، مسجد کی درخواست مسترد۔ناگپور ہائی کورٹ کا فیصلہ

ناگپور ،۶؍دسمبر(محمد راغب دیشمکھ کی خصوصی رپورٹ) بامبے ہائی کورٹ کی ناگپور بینچ نے ایک اہم فیصلہ سناتے ہوئے واضح کیا ہے کہ مذہبی عبادات کے لیے لاؤڈ اسپیکر کا استعمال کسی بھی طور پر لازمی نہیں ہے، اس لیے اس کے استعمال کو بنیادی حق قرار نہیں دیا جا سکتا۔ عدالت نے گوندیا ضلع کی مسجد غوثیہ کی جانب سے لاؤڈ اسپیکر کے استعمال کی اجازت کی درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا کہ

 

عبادات کی ادائیگی کے لیے بلند آواز والے آلات کو مذہبی ضرورت ثابت نہیں کیا جا سکا۔جسٹس انیل پنسرے اور جسٹس راج واکوڑے کی دو رکنی بنچ کے سامنے سماعت کے دوران عدالت نے سوال اٹھایا کہ کون سا مذہبی قانون عبادات کے لیے لاؤڈ اسپیکر کو ناگزیر قرار دیتا ہے؟ عدالت نے کہا کہ درخواست گزار اس سلسلے میں کوئی مذہبی، قانونی یا قابلِ قبول دستاویزی ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہا۔ سپریم کورٹ کے فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے عدالت نے کہا کہ کوئی مذہب ایسی عبادت کی تلقین نہیں کرتا جو

 

دوسروں کے سکون، صحت یا ماحول کے لیے نقصان دہ ہو۔عدالت نے آئینِ ہند کے آرٹیکل 21 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ زندگی کا حق صرف زندہ رہنے تک محدود نہیں بلکہ ہر شہری کو باوقار، پُرسکون اور محفوظ ماحول میں جینے کا حق حاصل ہے۔ عدالت نے مزید کہا کہ اظہارِ رائے یا مذہبی رسومات کی ادائیگی کے حق کے ساتھ ساتھ دوسروں کو یہ اختیار بھی ہے کہ وہ کیا سنیں اور کیا نہ سنیں۔ کسی کو بھی اپنی آواز دوسروں پر زبردستی مسلط کرنے کا حق حاصل نہیں۔عدالت نے ریاست میں صوتی آلودگی کے بڑھتے مسئلے پر شدید ناراضگی

 

ظاہر کی اور کہا کہ اگرچہ ماحولیاتی قوانین اور شور کی سطح سے متعلق ضابطے موجود ہیں، مگر ناگپور سمیت مختلف علاقوں میں ان کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔ پولیس اور متعلقہ حکام کی جانب سے بھی اکثر کارروائی کا فقدان پایا جاتا ہے، جسے عدالت نے انتہائی قابلِ اعتراض قرار دیا۔فیصلے میں عدالت نے شہر کے مختلف کلبوں، شادی ہالوں اور تقریب گاہوں میں رات گئے تک جاری رہنے والی تیز موسیقی، آتش بازی اور شور شرابے کا سخت نوٹس لیا۔ عدالت نے کہا کہ ان سرگرمیوں سے شہریوں کا سکون بری طرح متاثر ہوتا ہے اور ٹریفک مسائل میں اضافہ ہوتا ہے۔عدالت نے مذہبی مقامات پر بھی لاؤڈ اسپیکر کے بے جا استعمال پر ناراضگی

 

ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ کئی جگہوں پر اذان، بھجن اور دیگر سرگرمیوں کے دوران شور کی سطح سے متعلق قوانین کی واضح خلاف ورزی کی جاتی ہے، جو کسی طور برداشت کے قابل نہیں۔عدالت نے اپنے فیصلے میں صوتی آلودگی کے صحت پر تباہ کن اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ بلند آوازیں جسم میں نقصان دہ کیمیکلز بڑھاتی ہیں، جو ہائی بلڈ پریشر، دل کی بیماریوں، ذہنی تناؤ، تھکاوٹ اور جارحانہ رویّوں کا سبب بنتی ہیں۔ مزید یہ کہ 120 ڈیسی بل سے زائد شور مستقل سماعتی نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔فیصلے کے اختتام پر عدالت نے

 

حکومتِ مہاراشٹر کو ہدایت دی کہ وہ صوتی آلودگی پر قابو پانے کے لیے فوری، سنجیدہ اور مؤثر حکمتِ عملی وضع کرے اور قوانین پر سختی سے عمل درآمد یقینی بنائے، تاکہ شہریوں کے سکون اور صحت کا تحفظ ہو سکے۔

متعلقہ خبریں

Back to top button