بریلی میں تشدد کے بعد مولانا توقیر رضا گرفتار، 48 گھنٹے کے لئے انٹرنیٹ بند

بریلی میں جمعہ کی نماز کے بعد پیش آنے والے تشدد کے واقعہ میں پولیس نے اتحادِ ملت کونسل کے صدر مولانا توقیر رضا خان کو گرفتار کرلیا ہے۔ مولانا کو گرفتار کرنے کے بعد عدالت نے انہیں 14 دن کی عدالتی حراست میں بھیج دیا۔
مولانا سمیت کُل 8 افراد کو جیل بھیج دیا گیا ہے۔ اس تشدد کے معاملے میں پولیس نے کُل 10 ایف آئی آر درج کی ہیں جن میں سے 7 میں مولانا توقیر کا نام شامل ہے۔ پولیس نے پریس کانفرنس کرکے اس واقعے سے جڑی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ کس طرح اس تشدد کی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔
ہفتہ کے روز اتحادِ ملت کونسل کے صدر اور مقامی عالم دین مولانا توقیر رضا خان کی گرفتاری کے بعد ضلع انتظامیہ نے دو دن کے لئے انٹرنیٹ خدمات معطل کرنے کا اعلان کیا۔ مولانا نے ’’آئی لو محمد‘‘ مہم کے حق میں احتجاج کی کال دی تھی، جس کے نتیجہ میں جمعہ کی نماز کے بعد پولیس اور مظاہرین کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئیں۔ انتظامیہ کے مطابق یہ اقدام افواہوں کو روکنے اور امن و قانون کو قائم رکھنے کے لئے کیا گیا۔
ریاستی حکومت نے اس تشدد کو امن و امان خراب کرنے کی ’’سوچی سمجھی سازش‘‘ قرار دیا جبکہ اپوزیشن قایدین نے پولیس کی کارروائی پر تنقید کی۔ بی جے پی نے اپنے قایدین کو ہدایت دی کہ اس معاملے پر عوامی سطح پر کوئی بیان نہ دیں۔
پولیس کے مطابق مولانا توقیر رضا خان اس تشدد کے ’’اصل ملزم‘‘ ہیں۔ انہیں دیگر 7 افراد کے ساتھ 14 دن کی عدالتی حراست میں بھیج دیا گیا ہے۔ گرفتار شدگان میں سرفراز، منیف الدین، عظیم احمد، محمد شریف، محمد عامر، ریحان اور محمد سرفراز شامل ہیں۔ پولیس نے بتایا کہ مولانا کو احتجاج کی اجازت نہیں دی گئی تھی اس کے باوجود انہوں نے مارچ کی کال دی۔ ہفتے کی صبح انہیں فیض انکلیو سے گرفتار کیا گیا جہاں وہ قیام پذیر تھے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ مولانا نے اپنے حامیوں کو یہ کہہ کر گمراہ کیا کہ وہ دہلی روانہ ہو گئے ہیں۔
ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اویناش سنگھ اور ایس ایس پی انوراگ آریہ نے گرفتاریوں کی تصدیق کی۔ ڈی آئی جی اجے کمار ساہنی نے تشدد کو ’’پہلے سے تیار کی گئی سازش‘‘ قرار دیا۔ بریلی میں بی این ایس ایس کی دفعہ 163 نافذ تھی جس کے تحت بغیر اجازت عوامی اجتماع پر پابندی ہے۔
جمعہ کے روز نماز کے بعد بڑی تعداد میں مظاہرین مسجد کے باہر جمع ہوئے۔ پولیس نے بھیڑ کو منتشر کرنے کی کوشش کی تو صورتحال بگڑ گئی۔ بعض مظاہرین مشتعل ہوگئے اور پتھراؤ شروع کردیا، جس کے بعد پولیس کو ہلکی طاقت استعمال کرنی پڑی۔ جھڑپیں درگاہ اعلیٰ حضرت اور اسلامیہ گراؤنڈ تک پھیل گئیں جس کی وجہ سے عالمگیری گنج، سول لائنز، بڑا بازار اور بنسمندی کے علاقے میں دکانیں عارضی طور پر بند کر دی گئیں۔
گرفتاری کے بعد پورے ضلع میں 48 گھنٹوں کے لئے انٹرنیٹ خدمات بند کر دی گئیں۔ انتظامیہ نے اسے احتیاطی قدم قرار دیا تاکہ افواہوں کا پھیلاؤ روکا جاسکے۔ اس دوران پولیس نے ویڈیو فوٹیجز کی جانچ کے بعد 36 افراد کو حراست میں لیا۔ اب تک 11 ایف آئی آر درج کی جاچکی ہیں جن میں سے دو مقدمات براہِ راست مولانا توقیر رضا کے خلاف ہیں۔
چیف منسٹر یوگی آدتیہ ناتھ نے واضح کیا کہ حکومت امن و امان میں رخنہ ڈالنے والی کسی بھی سرگرمی کو برداشت نہیں کرے گی۔ انہوں نے کہا ’’انتشار قبول نہیں کیا جائے گا‘‘ اور جو عناصر شہریوں پر حملہ کریں گے یا سیکورٹی کو نقصان پہنچائیں گے ان کے خلاف سخت کارروائی ہوگی۔
یہ تنازعہ 9 ستمبر کو شروع ہوا جب کانپور پولیس نے 24 افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا کہ انہوں نے 4 ستمبر کو عید میلاد النبیؐ کے جلوس میں ’’آئی لو محمد‘‘ کے بورڈ لگائے۔ کچھ ہندو تنظیموں نے اس پر اعتراض کیا اور اسے روایت سے انحراف اور اشتعال انگیزی قرار دیا۔ بعد میں یہ معاملہ اتر پردیش کے دیگر حصوں کے ساتھ ساتھ اتراکھنڈ اور کرناٹک تک بھی پھیل گیا، جہاں احتجاج اور پولیس کارروائیاں ہوئیں۔