نیشنل

مولانا توقیر رضا خان اور 5 دیگر ملزمین کی ضمانت مسترد — “آئی لو محمدؐ” پوسٹر معاملہ بنا سیاسی تنازعہ

بریلی کی ایک  عدالت نے اتحادِ ملت کونسل کے سربراہ مولانا توقیر رضا خان اور دیگر 5 ملزمین کی ضمانت کی درخواستیں مسترد کر دیں۔ یہ تمام افراد 26 ستمبر کو پیش آنے والے اُس ہنگامہ آرائی کے معاملے میں گرفتار ہیں، جو “آئی لو محمدؐ” کے نعرے والے پوسٹروں کے سبب شروع ہوئی تھی۔

 

سرکاری وکیل مہیش پاتھک کے مطابق، مولانا توقیر رضا نے دفعہ 144 نافذ ہونے کے باوجود عوام سے اسلامیہ میدان میں جمع ہونے کی اپیل کی تھی۔ پولیس جب مجمع کو منتشر کرنے پہنچی تو اس پر مبینہ طور پر سنگباری کی گئی، سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کے گن مین سے رائفل چھین لی گئی اور ایک پولیس جیپ سے وائرلیس سیٹ بھی لے لیا گیا۔

 

اس واقعے کے سلسلے میں مختلف تھانوں — کوتوالی، بارادری، پریم نگر، کینٹ اور قلعہ — میں دس ایف آئی آر درج کی گئی ہیں جن میں 125 نامزد اور تقریباً 2500 نامعلوم افراد کو ملزم بنایا گیا ہے۔ مولانا توقیر رضا کا نام ابتدا میں سات مقدمات میں تھا، بعد میں تحقیق کے دوران بقیہ تین مقدمات میں بھی شامل کیا گیا۔

 

ضمانت کی درخواست بارادری تھانے کے تحت شیام گنج علاقے کے کیس سے متعلق تھی، جس کی سماعت ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج امریتا شکلا کی عدالت میں ہوئی۔ جن دیگر ملزمین کی درخواستیں مسترد ہوئیں ان میں فیضان سکالانی، تقیم، منیر ادریشی (تمام بریلی کے رہنے والے) اور ہرمَن و نعمت اللہ (پورنیہ، بہار کے رہنے والے) شامل ہیں۔

 

مولانا توقیر رضا 27 ستمبر سے حراست میں ہیں اور فی الحال فتح گڑھ جیل میں بند ہیں، جبکہ دیگر ملزمین بریلی جیل میں قید ہیں۔ ان پر 2019 میں سی اے اے/این آر سی مخالف احتجاجات سے متعلق پرانے مقدمات بھی زیرِ سماعت ہیں۔

 

توقیر رضا کے حامیوں  کا کہنا ہے کہ حکومت مسلمانوں کو صرف اپنے ایمان کے اظہار پر نشانہ بنا رہی ہے۔

 

“آئی لو محمدؐ” کا نعرہ جو محض عقیدت اور مذہبی وابستگی کے اظہار کے طور پر سامنے آیا تھا، اسے دائیں بازو کے گروہوں اور حکومت کے بعض حلقوں نے سیاسی رنگ دے دیا۔ ایمان کی گواہی کے طور پر دیا گیا یہ نعرہ غلط طور پر اشتعال انگیز یا چیلنج کے طور پر پیش کیا گیا۔

 

ملک کے کئی مقامات پر ایسے پوسٹروں کو “فرقہ وارانہ” یا “غیر ملکی اثر والا” قرار دے کر پولیس نے مقدمات درج کیے

متعلقہ خبریں

Back to top button