نیشنل

آل انڈیا مسلم انٹلکچول سوسائٹی کے زیر اہتمام ”پیام انسانیت “ ڈائلاگ کا انعقاد

ہر مذہب محبت اور ہمدردی کی یکساں تعلیم دیتا ہے: فادر ڈونلڈ ڈی سوزا

آل انڈیا مسلم انٹلکچول سوسائٹی کے زیر اہتمام ”پیام انسانیت “ ڈائلاگ کا انعقاد

لکھنؤ: یگانگت اور مشترکہ مقصد کایک زبردست مظاہرہ کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم انٹیلکچوئل سوسائٹی (اے آئی ایم آئی ایس) نے ہفتہ کے روز گورنر ہاؤس کے سامنے واقع سنگم بینکویٹ میں ’پیامِ انسانیت اور ہماری ذمہ داری‘ کے موضوع پر ایک شام مکالمہ کا انعقاد کیا۔ یہ پروگرام مختلف مذاہب،مختلف مکتبہ فکر اور پیشوں سے تعلق رکھنے والے رہنماؤں کے ایک اہم سنگم کے طور پر سامنے آیا، جہاں تمام شرکاء نے امن اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دینے کا عہد کیا۔اس پروگرام میں پچاس سے زائد معروف مقررین موجود تھے

 

، جن میں نمایاں مذہبی رہنما، سینئر جج، اعلیٰ حکومتی عہدیدار، نامور ڈاکٹرز، اسکالرز اور سماجی کارکن شامل تھے۔ تمام نے متفقہ طور پر ایک قرارداد منظور کرتے ہوئے آج کے سماجی و سیاسی ماحول میں ”مکالمے کے سچے سپاہی” اور ”تکثیری اقدار کے محافظ” بننے کا اعلان کیا۔ممتاز مقررین کی فہرست میں حضرت مولانا سید بلال عبد الحی حسنی ندوی، صدر، آل انڈیا پیام انسانیت فورم و ناظم ندوۃ العلماء لکھنؤ،حضرت مولانا خالد رشید فرنگی محلی، چیئرمین، اسلامک سنٹر آف انڈیا،مولانا سیف عباس نقوی، صدر شیعہ مرکزی چاند کمیٹی، جسٹس بی ڈی نقوی، سابق ضلعی جج، اور جسٹس وقار احمد انصاری، چیئرمین پرماننٹ لوک عدالت، پریاگ راج، سوتنتر پرکاش گپتا، انفارمیشن کمشنر، حکومت یو پی، ریو فادر ڈونلڈ ڈی سوزا، چانسلر، کیتھولک ڈائیوسس آف لکھنؤ،پنڈت شری گرو دیو اچاریہ جی، ہندو مذہبی رہنما،پروفیسر ایم ایل بھٹ، ڈائریکٹر، کلیان سنگھ سپر اسپیشلٹی کینسر انسٹی ٹیوٹ اینڈ ہسپتال وغیرہ کے نام نمایاں ہیں۔

 

ان کے علاوہ پروگرام میں دیگر معزز شخصیات بھی شامل تھیں جن میں اودے پرتاپ (آئی پی ایس)، مولانا عمار حسنی ندوی، مس سنجیتا شرما، ڈاکٹر پی بی کھرے، پروفیسر ڈاکٹر کے کے سنگھ، ڈاکٹر سید احمد ارشاد، ایڈوکیٹ ابھے کمار سنگھ، پروفیسر ڈاکٹر رامیش چندر، پروفیسر ڈاکٹر راجندر پرساد، پروفیسر ڈاکٹر اے پی جین، پروفیسر ڈاکٹر آر کے گرگ، ڈاکٹر امنگ کھنہ، ڈاکٹر راج کمپل گپتا، ڈاکٹر روما سمارٹ جوزف، ڈاکٹر منوج پانڈے، مسٹر امرناتھ مشرا، مس شکھا سنگھ، ڈاکٹر پی آر دھوسیا، مولانا عبدالعلی حسنی، مفتی ڈاکٹر محمد ادریس،ڈاکٹر مسیح الدین خان اور دیگر شعبہ طب، قانون، سرکاری خدمات اور سماجی کام کی نمایاں شخصیات شامل ہیں۔اس اہم پروگرام میں مقررین نے زور دیا کہ‘پیام انسانیت’کوئی تصوراتی خیال نہیں بلکہ ہندوستانی تہذیب کی بنیادی روح ہے،

 

جو ویدوں میں، بدھ اور مہاویر کی تعلیمات میں، حضرت عیسیٰ مسیح کی شفقت میں، گرو گرنتھ صاحب کی حکمت میں اور قرآن مجید کے ”رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْن” ہونے کے حکم میں گونجتی ہے۔ایک متفقہ قرارداد کے ذریعے ہر شہری کی تین فریضہ بیان کیے گیے:پہلاہم اس مکالمے کے سچے ترجمان بنیں گے: سوشل میڈیا سے پھیلتی تقسیم کے اس دور میں دانشوروں نے حقیقی گفتگو کے لیے جگہیں بنانے، جواب دینے کے بجائے سمجھنے کے لیے سننے اور مختلف رائے میں مشترکہ انسانیت تلاش کرنے کا عہد کیا۔دوسرا یہ کہ تکثیری اقدار کے محافظ بننا: محفل نے اس بات کی تصدیق کی کہ ہندوستان کی عظمت ”وحدت در کثرت” میں ہے اور اس کثرت کو دقیانوسی تصورات، شک اور نفرت کے زہر سے بچانے کا عہد کیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اختلافات کی سیاست کاری کو شعوری طور پر مسترد کیا جائے اور اپنے ہمسایوں کے تہواروں کو اپنے تہواروں جیسے ہی جوش و خروش سے منایا جائے۔تیسرا اور آخری باہمی میل جول کی روشن روایت کو دو بارہ زندہ کرنا۔فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی ان کہی کہانیوں — ہندوؤں کا مسجد کی حفاظت کرنا، مسلمانوں کا مندر کی نگرانی کرنا، سکھوں کا سب کے لیے لنگر چلانا اور عیسائیوں کا ہر مذہب کے بچوں کو تعلیم دینا — کو اجاگر کرنے پر مضبوط اجماع پیدا ہوا۔ یہ طے پایا کہ ان داستانوں کو تقسیم کی نا مناسب آوازوں سے بلند تر کرنا ہوگا۔

 

اس موقع پر اسلامک سنٹر آف انڈیا کے چیئرمین حضرت مولانا خالد رشید فرنگی محلی نے خصوصی خطاب کرتے ہوئے پروگرام کی بنیاد رکھی۔ انہوں نے اسلام کے انصاف اور ہمدردی کے اصولوں پر زور دیتے ہوئے کہا، ”اسلام کا بنیادی تعلیم‘رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْن’یعنی تمام مخلوقات کے لیے رحمت بننا ہے۔ پیام انسانیت جیسی پہلے محض سماجی محافل نہیں، بلکہ ہر امن پسند ہندوستانی کا مذہبی فریضہ ہے کہ وہ باہمی احترام کو فروغ دے اور قوم کے سماجی تانا بانا کی حفاظت کرے

 

۔اسی جذبے کا اظہار کرتے ہوئے ریو رڈفادر ڈونلڈ ڈی سوزا نے کہا، ”جب ہم ہر مذہب کی گہرائی میں جھانکتے ہیں تو ہمیں اپنے پڑوسی سے محبت اور تمام کے لیے ہمدردی کا ایک ہی سونے کا دھاگہ نظر آتا ہے۔ یہ محفل اس حقیقت کی غماز ہے کہ ہندوستانی اور انسان ہونے کے ناطے ہماری مشترکہ پہچان، ذات پات کے جداگانہ راستوں سے کہیں بڑھ کر ہے۔اس پروگرام میں پنڈت شری گرو دیو اچاریہ جی نے کہا، ”گیتا ہمیں ہر وجود میں ایک ہی روح دیکھنا سکھاتی ہے

 

۔ جب ملک کے مفاد میں ایک مولانا اور ایک پنڈت اکٹھے بیٹھتے ہیں، تو یہ عبادت کی اعلیٰ ترین شکل ہے۔ ہماری‘ذمہ داری’ہے کہ ہم اس پیغام کو ہر گھر تک پہنچائیں۔انفارمیشن کمشنر مسٹر سوتنتر پرکاش گپتا نے کہا، عوامی خادم اور دانشور ہونے کے ناطے ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم امن کی صحیح داستان عوام تک پہنچائیں۔ انتشار کے زمانے میں سچ سب سے پہلے شکار ہوتا ہے، اور ہمیں اس کے محافظ بننا چاہیے۔ایک منفرد نقطہ نظر پیش کرتے ہوئے معروف ہومیوپیتھ ڈاکٹر امنگ کھنہ نے مشاہدہ کیا، جس طرح انسانی جسم ناکام ہو جاتا ہے اگر اس کے اعضاء ایک دوسرے کے خلاف کام کریں، اسی طرح ایک قوم ناکام ہو جاتی ہے اگر اس کے گروہوں میں تصادم ہو۔ قوم کی صحت اسی ہم آہنگی پر منحصر ہے۔

 

معروف سماجی کارکن مسز طاہرہ حسن نے اس پہل کی تعریف کرتے ہوئے سوسائٹی کے ہم آہنگی، مساوات اور مشترکہ ذمہ داری کے فروغ کے لیے مستحکم عہد کی ستائش کی۔ انہوں نے ڈاکٹر عمار انیس نگرامی کی قیادت کو سراہا جنہوں نے غور و فکر اور سماجی ترقی کے لیے ایک متحرک پلیٹ فارم تشکیل دیا ہے — جو آگاہی کو عمل پر مبنی ہمدردی میں بدل رہا ہے۔ انہوں نے زور دیا۔انسانیت کی ترویج محض ایک پیغام نہیں؛ یہ ایک ایسی تحریک ہے جو قوم کی اخلاقی بنیاد کو تشکیل دے رہی ہے۔ آپ کی لگن ایک طاقتور مثال قائم کرتی ہے جو معاشرے کو یکجہتی اور مثبت تبدیلی کی طرف رہنمائی کر رہی ہے۔

 

پروگرام کے کنوینر احمد نگرامی نے ایک پرجوش اپیل کرتے ہوئے سب سے عہد کیا کہ وہ درد مند، پل تعمیر کرنے والے اور ہندوستان کے لازوال پیغام انسانیت کے محافظ” بنیں۔ انہوں نے وضاحت کی۔اگر ہم سب اپنے اپنے مذہب کو سچے دل سے — جیسے کہ وہ اصل میں ہیں — اپنائیں تو دنیا میں کوئی نفرت نہیں ہوگی۔ تمام مذاہب امن کی تعلیم دیتے ہیں۔ طاقت کا غرور ہی ہے جو تشدد کا باعث بنتا ہے اور نفرت کو فروغ دیتا ہے۔

 

اس پروگرام کا اختتام حضرت مولانا سید بلال عبد الحی حسنی ندوی کے طاقتور خطاب پر ہوا جنہوں نے اختتامی دعا کروائی۔ انہوں نے اس پہل کو سراہا اور اسے مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کے بنیادی وژن سے جوڑا، جو پیام انسانیت مشن کے بانی تھے۔مولانا ندوی نے زور دے کر کہا کہ محبت اور امن کا راستہ ہی قومی خوشحالی کا واحد حقیقی راستہ ہے۔ انہوں نے خبردار کیا، ”جب بھی اس ملک میں دشمنی، تشدد اور نفرت کو پنپنے دیا گیا ہے، تو اس کے نتیجے میں صرف نقصان اور پسپائی ہوئی ہے۔ یہ قوم تب تک ترقی کرتی رہے گی جب تک پیام انسانیت کا پیغام عام ہو اور ہم سب مل جل کر رہیں۔انہوں نے اس مکالمے کو ہال سے آگے پھیلانے، اسے گھروں، یونیورسٹیوں اور بازاروں میں ہزاروں گفتگوؤں کی شمع جلانے کی ایک واضح اپیل کے ساتھ اختتام کیا۔

 

اس مؤثر کن اختتام کے بعد ریسپشن کمیٹی کے چیئرمین و وِی ہیلپ فاؤنڈیشن کے سیکریٹری مسٹر نوید احمد نے رسمی شکریہ ادا کیا اور مہمانوں کو رات کے کھانے پر مدعو کیا۔ پروگرام یکجہتی اور مشترکہ عزم پر ختم ہوا، جس نے قومی سالمیت اور اجتماعی ذمہ داری کے لیے اپنی وابستگی کو مضبوطی سے اجاگر کیا۔

متعلقہ خبریں

Back to top button