مضامین

وقت پھر بیداری کا امتحان لینے آیا ہے – تلنگانہ میں گھر گھر سروے اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی پر سپریم کورٹ کا اقدام

وقت پھر بیداری کا امتحان لینے آیا ہے – تلنگانہ میں گھر گھر سروے اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی پر سپریم کورٹ کا اقدام

سید سرفراز احمد،بھینسہ تلنگانہ

ریاست تلنگانہ میں گھر گھر جامع سروے کا آغاز ہوچکا ہے اس سروے سے ریاست کےکونسے طبقے کی معاشی سیاسی سماجی و تعلیمی حالت کیا ہے یہ پوری طرح واضح ہوجاۓ گی اس بات میں کوئی شک نہیں کہ نہ صرف ریاست تلنگانہ بلکہ پورے بھارت کے مسلمان ہر شعبہ میں پسماندگی کا شکار ہے بلکہ دلت سے بھی حالت بدتر بتائی جاتی ہے خود اس بات کو سچر کمیٹی رپورٹ نے پیش کی تھی لیکن فسطائی دور کے حکمرانوں کو لفظ مسلمان سے کانٹے چھبتے ہیں تب ہی وہ مذہب کے نام پر تحفظات فراہم کرنے یا کسی بھی شعبہ میں مسلمانوں کو ان کا حق دینے کا سختی سے دفاع کرتے ہیں جب کہ اس ملک کا دستور اقلیتوں کو ان کے حقوق فراہم کرنے کی پوری آزادی دیتا ہے لیکن فسطائی حکمرانوں کو صرف مسلمان کھٹکتے ہیں حالانکہ یہی حکمران غیر ممالک میں ہندو اقلیتوں کے تحفظ ہو یا ان کےحقوق پر کھل کر اپنی بات رکھتے ہیں لیکن یہ اپنے ہی ملک کی اقلیتی رعایا سے نا انصافی کرنا ان کی نچلی درجہ کی سیاست کا ایک اہم حصہ ہے۔

 

بات ہورہی تھی تلنگانہ میں گھرگھر جامع سروے کی ایک رخ سے یہ سروے جتنی اہمیت کا حامل ہے اس سے بھی ذیادہ اہمیت مسلمانوں کے اندر بیداری پیدا کرنے کی ہے اگر ہم بیدار ہونگے تو خود بھی اس کام میں پہل کریں گے اور دوسروں کو بھی ترغیب دیں گے ایسا بالکل بھی نہیں ہے کہ مسلمانوں میں شعور بیدار نہیں ہورہا ہے بلکہ مسلمان باشعور بن رہے ہیں لیکن وقت کی نزاکت کے ساتھ مزید اس میں تیزی لانا باشعور کے ساتھ دانش مند افراد کی نشانی ہوتی ہے جب کبھی بھی اس طرح کے سروے وغیرہ آتے ہیں تو سب سے ذیادہ ناخواندہ طبقہ پریشان ہوجاتا ہے کبھی کوئی افواہ اڑادی جاتی ہے تو لاعلم طبقہ تذبذب کا شکار ہوجاتا ہے جیسے اس سروے کو این آر سی کی افواہ بناکر اڑا یا گیا پہلے اس افواہ کو مسلم معاشرے سے ختم کرنا ہوگا اس کے لیئے مساجد سے اعلان سماجی جہد کاروں ملی تنظیموں کے ذریعہ شعور بیداری مہم زمہ داران حضرات کے چھوٹے چھوٹے ویڈیو بیان وغیرہ مسلم معاشرے کے لیئے بہت مفید ثابت ہوسکتے ہیں۔

 

اس سروے کا اہم پہلو یہ ہے کہ اس فارم میں پچھتر سوالات اہم درجہ کے ہیں جن میں صحیح تفصیلات کو پر کرنا ہے اس لے لیئے ہر خاندان پی ڈی ایف سروے فارم کو دیکھتے ہوۓ قبل از وقت تمام تر تفصیلات کو ایک کاغذ پر درج کرلیں ورنہ اگر آپ تیاری نہیں کریں گے تو فارم کی خانہ پری کے دوران آپ کو مشکلات سامنا کرنا پڑسکتا ہے یا پھر آپ سے غلطیاں بھی سرزد ہوسکتی ہیں اور اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ شمار کنندہ کو صحیح تلفظ کے ساتھ ناموں کا اندراج کروائیں یہاں دو باتیں اہم ہیں ایک تو یہ کہ دانشواران کی راۓ ہے کہ خانہ پوری پنسل سے کرنے نہ دیں بلکہ پین کا استعمال کرنے لگوائیں تاکہ شمار کنندہ کسی بھی طرح کی خیانت نہ کرسکیں دوسری بات کسی بھی خانے کو خالی نہ چھوڑنے دیں اگر ہاں ہے تو ہاں یا نہ ہے تو نہ لگائیں اس سے آپ کی اصل سچائی حکومت تک پہنچے گی اگر خالی (بلانک)چھوڑدیا جاۓ تو یہ نہ ہاں میں شمار کیا جاۓ گا نہ نہیں میں شمار ہوگا اس طرح سے آپ آسانی سے اس گھر گھرجامع سروے فارم کو پر کرسکتے ہیں اگر کوئی پہلے سے اس کی تیاری نہیں کرسکتے تو کسی اہل علم کا تعاون لے کر ایک کاغذ پر تمام تر تفصیلات کو درج کرلیں۔

 

حکومت کا یہ سروے اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ ریاست میں طبقہ واری سطح پر کون کس قدر پسماندہ ہے یا ترقی یافتہ، جب یہ طئے ہوجاتا ہے تو حکومت اپنی آگے کی پالیسی اور منصوبہ بندی طئے کرتی ہے بلکہ یہ چیزیں بھی سامنے آجاتی ہیں کہ اقلیتوں کے کس زمرے کو زائدحقوق فراہم ہورہے ہیں اور کونسے طبقے سے حق تلفی ہورہی ہے ہاں یہ الگ بات ہے کہ حکومت اس سروے کے بعد فائدہ پہنچاۓ یا نہ پہنچاۓ لیکن ہمیں ہماری زمہ داری کو ادا کرنا چاہیئے کیونکہ اس سروے کا ڈاٹا آئندہ برسہا برس کام کرتا ہے جس سے آنے والی نسلوں کو بھی فائدہ پہنچتا ہے کیونکہ ہم اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ مسلمان ہر طرح پسماندگی کا شکار ہیں اگر ہم اپنی زمہ داری ادا نہیں کریں گے تو آنے والے کل میں حکومت پر کوئی بھی دباؤ نہیں بناسکتے اگر ہم اپنی زمہ داری کو ادا کریں گے پھر بھی حکومت اقدامات نہیں کرے گی تو آنے والے کل میں ہم حکومت کا گریبان پکڑ کر سوال بھی کرسکتے ہیں اسی لیئے یہ وقت بیداری کا ہے ہم سب کو بیدار ہونا ہے اور اپنے کاموں کو آگے پیچھے کرتے ہوۓ سب کو بھی بیدار کرنا ہے کیونکہ گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں۔

 

8/نومبر بروز جمعہ کو عدالت اعظمیٰ کے ساتھ رکنی ججس کی بنچ نے 57 سال بعد 1967 کے فیصلے پر سماعت کرتے ہوۓ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو اقلیتی ادارہ قائم رکھنے کا آئینی راہ ہموار کی چار ججس کی اکثریتی راۓ نے یونیورسٹی کو اقلیتی موقف کے حق میں مثبت انداز میں دیکھا چیف جسٹس چندر چوڑ نے دستور کی دفعہ (1)30 کا حوالہ دیتے ہوۓ کہا کہ دستور کے حوالے سے ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ یونیورسٹی کو قائم کرنے والے کون تھے ان کا تعلق کس طبقہ سے تھااس کو فنڈ کہاں سے لگایا گیا اس کے قیام کا مقصد کیا تھا اس وسیع مفہوم کو دیکھتے ہوۓ 1967 کے عزیز باشا بنام یونین آف انڈیا کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا جس فیصلے میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا اقلیتی درجہ ختم کیا گیا تھا۔

 

اس راحتی فیصلے نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو اقلیتی درجہ ماننے کا ایک راستہ ہموار کرتے ہوۓ 1967 کے عزیز باشا کیس کو سرے سے رد کردیا جس سے 1981 کا ایکٹ سامنے آجاتا ہے جس کو وقت کی پارلیمنٹ نے اقلیتی موقف تسلیم کرچکی ہے یہاں یہ بات واضح ہونی چاہیئے کہ اب سپریم کورٹ کی تین رکنی بنچ اس پر فیصلہ کرے گی ماہرین کا کہنا ہے کہ سات رکنی بنچ نے قانونی حیثیت اور آئینی راستہ بتادیا جس کے بعد اس فیصلے میں راستہ آسان ہوجاۓ گا چونکہ سہ رکنی بنچ کو آئینی دفعہ 30 کا جائزہ لیتے ہوۓ یہ طئے کرنا ہے کہ یونیورسٹی کی تاریخی حیثیت کیا ہے؟کون اس کی تعمیر میں حصہ لیا؟کس نے اس کو بنوایا؟فنڈ کس نے لگایا؟قیام کا مقصد کیا تھا؟فیصلہ اب یونیورسٹی کی تاریخ پر ہوگا بات اگر تاریخ تک جاۓ گی تو ظاہر ہے یونیورسٹی کی بنیاد تک جاۓ گی کیونکہ سرسید احمد خان نے ایک مدرسہ سے اس کی بنیاد ڈالی پھر محمڈن اینگلو اورینٹل کالج، ہر حال میں کیس اقلیتی موقف میں پوری طرح سے مضبوط ہے کیونکہ یہی سچائی ہے۔

 

لیکن چیف جسٹس چندر چوڑ نے ایک طرف یونیورسٹی کو آئینی حیثیت میں اقلیتی موقف میں پیش کیا اور ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ یونیورسٹی کے لیئے انتظامیہ کا اقلیتی ہونا ضروری نہیں ہے جس سے یہ بات نکل کر آتی ہے کہ اقلیتی یونیورسٹی کے لیئے اقلیتی انتظامیہ ہونا ضروری نہیں ہے یعنی مطلب صاف ہے کہ انتظامیہ میں کوئی بھی ہوسکتا ہے بہر کیف ساتھ رکنی بنچ کے آئینی فیصلے پر سہ رکنی بنچ کے پاس کوئی قانونی جواز نہیں ہے کہ وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو اقلیتی درجہ نہ دیں سات رکنی ججس کی بنچ بشمول چیف جسٹس نے یونیورسٹی کے اقلیتی ہونے کی قانونی راہ تو ہموار کردی جس طرح بابری مسجد کیس میں بھی بتایا گیا تھا کہ قانونی حیثیت اور شواہد کی بناء پر یہ جگہ بابری مسجد کی ہے پھر کیا ہوا آخری فیصلہ آستھا کی بنیاد پر رام مندر کے حق میں دے دیا گیا اب یہ تو آنے والا وقت طۓ کرے گا کہ سہ رکنی ججس کی بنچ کیا فیصلہ لے گی۔

 

لیکن بڑا سوال یہ ہے کہ سر سید کےاس لگاۓ گئے پودے کی ہم نے کتنی نگہداشت کی؟اس کے اقلیتی تحفظ کے لیئے ہم نے کیا قربانیاں دی؟اس مسلم یونیورسٹی کی شناخت کو معدوم کرنے کی سازشیں کس نے رچی؟اگر ہم اور ہماری ملی تنظیمیں ان اہم نکات پر کام کریں گے تو نسل در نسل مسلم قوم کے طلبہ اس یونیورسٹی سے استفادہ حاصل کرتے رہیں گے چونکہ اس یونیورسٹی کو بجاۓ نفع کے نقصان پہنچانے والے افراد سے بھی پاک کیا جانا چاہیئے چونکہ وقفہ وقفہ سے سازشیں رچی گئی میں آپ کو یاد دلادوں یونیورسٹی کے لوگو سے قرآنی آیت کو بھی حذف کیا گیا اب ایک موقع ہے کہ ہم اس یونیورسٹی کے اسلامی تشخص کو ہر حال میں محفوظ بنائیں اس کے لیئے ہر طرح کی قربانی کو پیش کریں بہت ممکن ہے کہ سہ رکنی ججس کا فیصلہ یونیورسٹی کو اقلیتی درجہ دینے کے حق میں ہی ہوگا لیکن ان تمام وابستگان یونیورسٹی کو اپنا احتساب کرنا چاہیئے کہ ہماری کونسی غلطیوں کی وجہ سے نوبت یہاں تک آ پہنچی۔

متعلقہ خبریں

Back to top button