نیشنل

لال قلعہ دھماکہ کیس: ڈاکٹر عادل احمد کے نکاح میں شریک دو ڈاکٹر گرفتار، شادی تقریب بنی دہشت گرد نیٹ ورک کی خفیہ میٹنگ !

لال قلعہ دھماکہ کیس: ڈاکٹر عادل احمد کے نکاح میں شریک دو ڈاکٹر گرفتار، شادی تقریب بنی دہشت گرد نیٹ ورک کی خفیہ میٹنگ

 

 

دہلی کے لال قلعہ دھماکہ کیس سے جڑے دہشت گردانہ نیٹ ورک کی تحقیقات میں نیا انکشاف سامنے آیا ہے۔ ہندوستان ٹائمس کی رپورٹ کے مطابق اترپردیش پولیس نے دو ڈاکٹروں کو حراست میں لے کر پوچھ تاچھ شروع کر دی ہے جو دہشت گرد نیٹ ورک کے مرکزی ملزم ڈاکٹر عادل احمد رادر کی شادی میں شریک تھے۔

 

رپورٹ کے مطابق 4 اکتوبر کو سرینگر میں ڈاکٹر عادل کی شادی کی تقریب دراصل اس نیٹ ورک کے اہم ارکان اور سہولت کاروں کی خفیہ ملاقات کا مرکز بنی تھی۔ یہ انکشاف اس وقت ہوا جب جموں و کشمیر پولیس نے 6 نومبر کو سہارنپور سے ڈاکٹر عادل کو گرفتار کیا۔ بعد ازاں یوپی پولیس اور جموں و کشمیر پولیس نے مشترکہ طور پر سہارنپور اور لکھنؤ میں کارروائیاں انجام دیں۔

 

تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ سہارنپور کے ایک اسپتال میں کام کرنے والے ڈاکٹر عاصم زیدی اور ڈاکٹر بلال احمد بھی شادی میں شریک تھے۔ دونوں کو جموں و کشمیر پولیس کی قیادت میں یوپی پولیس نے حراست میں لے کر پوچھ گچھ شروع کر دی ہے۔ پولیس کے مطابق اس تقریب میں دیگر ڈاکٹروں کی موجودگی کے شواہد بھی تلاش کیے جا رہے ہیں، جن میں لکھنؤ کے ڈاکٹر پرویز انصاری شامل ہیں، جنہیں منگل کو حراست میں لیا گیا تھا۔ ان کی بہن ڈاکٹر شاہین شاہد کو پیر کے روز فریدآباد سے گرفتار کیا گیا۔

 

تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ شادی کے اگلے ہی دن اس دہشت گرد گروہ نے اپنی سرگرمیاں شروع کر دی تھیں، جن میں بھارتی فوجیوں کو دھمکی آمیز پوسٹر چسپاں کرنا، ہتھیاروں کی فراہمی کا بندوبست اور خفیہ ذرائع سے فنڈز اکٹھا کرنا شامل تھا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر عادل اس نیٹ ورک کے مالیاتی و لاجسٹک امور کا ذمہ دار تھا۔

 

سہارنپور کے ہاسپٹل میں 5 لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ پانے کے باوجود ڈاکٹر عادل ایک کرائے کے دو کمروں والے مکان میں رہتا تھا، جس سے شبہ ہے کہ وہ اپنی آمدنی دہشت گردانہ سرگرمیوں کی فنڈنگ میں استعمال کرتا تھا۔

 

پولیس کے مطابق اس نیٹ ورک کا سراغ پہلی بار 19 اکتوبر کو ملا، جب سرینگر کے نوگام علاقے میں جیش محمد کے نام سے دھمکی آمیز پوسٹر پائے گئے۔ 27 اکتوبر کو مزید 25 پوسٹر لگنے کے بعد سی سی ٹی وی فوٹیج سے ڈاکٹر عادل کی سرگرمیوں کا پتہ چلا۔ فون سرویلنس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ پاکستانی ہینڈلرز سے رابطے میں تھا۔ اس کے بعد 6 نومبر کو سہارنپور سے گرفتار کیا گیا۔

 

اس کی نشاندہی پر 9 نومبر کو فریدآباد میں چھاپہ مار کارروائی میں پولیس نے ایک گودام سے 350 سے زائد کلو امونیم نائٹریٹ، دو اے کے 47 رائفلیں، 200 کارتوس، 20 الیکٹرانک ٹائمر، ڈیٹونیٹر اور کئی دھماکہ خیز آلات برآمد کیے۔

 

پولیس نے بتایا کہ ڈاکٹر شاہین شاہد، جنہوں نے الہ آباد میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کیا اور کانپور میڈیکل کالج میں سات برس تک اسسٹنٹ پروفیسر رہیں، 2021 سے لاپتہ تھیں۔ بعد میں ان کا تعلق ڈاکٹر مزمل شکیل گنائی سے ہوا، جو اسی نیٹ ورک سے وابستہ ہے۔ شاہین کو فریدآباد کی ایک نجی میڈیکل یونیورسٹی سے گرفتار کر کے سرینگر منتقل کیا گیا، جہاں ان سے مزید تفتیش جاری ہے۔

متعلقہ خبریں

Back to top button