نیشنل

سنبھل جامع مسجد کمیٹی کی درخواست الہ آباد ہائی کورٹ میں مسترد

الہ آباد ہائی کورٹ نے پیر کو سنبھل جامع مسجد کے تنازعہ میں سنبھل کی عدالت کی جانب سے مسجد کا سروے کروانے کے حکم کے خلاف مسجد کمیٹی کی درخواست کو مسترد کر دیا۔ عدالت نے کہا کہ کورٹ کمشنر کی تقرری اور مقدمہ دونوں قانونی طور پر قابل سماعت ہیں۔

 

جسٹس روہت رنجن اگروال نے اس معاملے پر فریقین کے وکلاء   مسجد کمیٹی، مدعی ہری شنکر جین اور آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا   کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا، جو اب سنایا گیا ہے۔

 

شاہی جامع مسجد کی مینجمنٹ کمیٹی نے ہائی کورٹ میں اپیل دائر کرتے ہوئے سنبھل کی عدالت کے اس حکم کو چیلنج کیا تھا جس میں ایک ایڈوکیٹ کمشنر کے ذریعے مسجد کا سروے کرنے کو کہا گیا تھا۔ ہری شنکر جین اور دیگر سات افراد نے سنبھل کی سینیئر ڈویژن سول جج کی عدالت میں مقدمہ دائر کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ شاہی عیدگاہ مسجد ایک مندر کو منہدم کرکے تعمیر کی گئی تھی۔

 

دعویٰ میں کہا گیا کہ مغل بادشاہ بابر نے 1526 میں سنبھل کے ہری ہر مندر کو گرا کر وہاں مسجد تعمیر کرائی۔ ہائی کورٹ نے پہلے مقدمے کی مزید کارروائی پر روک لگا دی تھی۔

 

پی ٹی آئی کے مطابق، ہندو فریق کے وکیل شری گوپال شرما نے کہا کہ  "ہائی کورٹ نے قانون کے مطابق درخواست مسترد کی ہے، ہم اس فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ سنبھل کے سینیئر سول جج کی جانب سے دیا گیا سروے کا حکم قانون کے دائرے میں ہے اور بالکل مناسب ہے۔

 

مسلم فریق کے وکیل شکیل احمد وارثی نے پی ٹی آئی کو بتایا کہ "الہ آباد ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ عدالتی طریقہ کار کے مطابق ہے۔”

 

مدعیان نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ سنبھل ضلع کے محلہ کوٹ پوروی میں واقع متنازعہ مذہبی مقام تک رسائی کے حق دار ہیں۔ مسجد کمیٹی نے الزام لگایا کہ 19 نومبر 2024 کو دوپہر کے وقت مقدمہ دائر کیا گیا، اور چند گھنٹوں کے اندر جج نے ایڈوکیٹ کمشنر مقرر کرکے اسی دن ابتدائی سروے کا حکم دے دیا، جو کہ 24 نومبر کو دوبارہ کیا گیا۔

 

عدالت نے ہدایت دی تھی کہ 29 نومبر تک سروے رپورٹ عدالت میں پیش کی جائے۔ بعد ازاں، 10 جنوری کو سپریم کورٹ نے سنبھل کے ضلع مجسٹریٹ کو حکم دیا تھا کہ مسجد کے داخلی دروازے کے قریب واقع  کنویں پر دوبارہ عبادت یا اس کا احیاء نہ ہونے دیا جائے اور موجودہ صورتحال برقرار رکھی جائے۔

متعلقہ خبریں

Back to top button