نیشنل

وقف ترمیمی قانون پر عمل درآمد کو روکنے کی درخواستوں پر سپریم کورٹ میں عبوری فیصلہ محفوظ

سپریم کورٹ نے جمعرات کو وقف ترمیمی ایکٹ پر عمل درآمد روکنے کی درخواستوں پر سماعت مکمل کرتے ہوئے عبوری فیصلہ محفوظ کر لیا

 

۔چیف جسٹس آف انڈیا بی آر گوئی اور جسٹس اے جی مسیح پر مشتمل بینچ نے تین دن تک اس معاملے پر عبوری حکم کے نقطۂ نظر سے سماعت کی۔ دورانِ سماعت، چیف جسٹس گوئی نے زبانی طور پر کہا کہ وقف کی رجسٹریشن کی شرط 1923 اور 1954 کے پرانے قوانین میں بھی موجود رہی ہے۔درخواست گزاروں نے اپنی دلیلیں 20 مئی کو پیش کی تھیں، جس کے بعد 21 مئی کو مرکزی حکومت کی طرف سے دلائل دیے گئے

 

۔آج اٹارنی جنرل تشار مہتا نے دفعہ 3E پر اٹھائی گئی تشویش پر بات کی، مخصوص قبائلی علاقوں میں وقف قائم کرنے پر پابندی عائد کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ شق قبائلی طبقات کے مفادات کے تحفظ کے لیے رکھی گئی ہے۔جب چیف جسٹس گوئی نے اس شق کی منطق کے بارے میں سوال کیا تو مہتا نے جواب دیا کہ وقف ایک ناقابلِ واپسی عمل ہے،

 

اور اس سے قبائلیوں کے حقوق متاثر ہو سکتے ہیں۔ مہتا نے کہا کہ جوائنٹ پارلیمنٹری کمیٹی کا کہنا ہے کہ قبائلی اسلام قبول کر سکتے ہیں، لیکن ان کی ایک الگ ثقافتی شناخت ہوتی ہے۔اس پر جسٹس مسیح نے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ یہ درست نہیں لگتا۔ اسلام تو اسلام ہے! مذہب تو ایک ہی ہے۔

 

تشار مہتا نے کہا کہ اگر یہ بات درست بھی ہو، تب بھی اس بنیاد پر پورے قانون پر عبوری حکم لگانا مناسب نہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں قبائلی زمین نہیں خرید سکتا کیونکہ ریاستی قانون اجازت نہیں دیتا۔

متعلقہ خبریں

Back to top button