شبیر علی نے کیا سپریم کورٹ کی عبوری ہدایات کا خیرمقدم، وقف ایکٹ کے خلاف قانونی و جمہوری جدوجہد جاری رکھنے کا اعلان

نئی دہلی/حیدرآباد، 16 اپریل: حکومتِ تلنگانہ کے مشیر اور وقف ترمیمی قانون کو چیلنج کرنے والے عرضی گزاروں میں شامل محمد علی شبیر نے چہارشنبہ کے روز دہلی میں وقف ترمیمی بل پر سپریم کورٹ کی سماعت میں شخصی طور پر شرکت کی اور عدالت کی اقلیتوں کے مذہبی اختیارات سے متعلق مضبوط ریمارکس کا خیرمقدم کیا۔
سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شبیر علی نے کہا کہ عدالت کی جانب سے اٹھائے گئے آئینی سوالات، خاص طور پر وقف اداروں میں غیر مسلموں کی شمولیت اور صدیوں پرانی وقف جائیدادوں کو لاحق خطرات کے سلسلے میں، ان کے موقف کی تائید کرتے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ آج کی سماعت نے ہمارے مؤقف کو درست ثابت کیا ہے۔ عدالت نے واضح طور پر اشارہ دیا کہ یہ قانون سنگین آئینی سوالات کو جنم دیتا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ عدالت وقف ترمیمی قانون پر عمل درآمد پر روک لگائے گی۔”
شبیر علی نے اس قانون کو مسلم مذہبی اداروں پر براہِ راست حملہ قرار دیا اور کہا کہ وہ اس کے خلاف قانونی اور جمہوری راستے سے لڑائی جاری رکھیں گے۔ اُنہوں نے کہا کہ یہ صرف قانونی لڑائی نہیں بلکہ مسلمانوں کے آئینی حقوق کے تحفظ کا مسئلہ ہے۔ جب تک اس ظالمانہ قانون کو واپس نہیں لیا جاتا، ہم خاموش نہیں بیٹھیں گے۔ ہم عدالتوں میں، پارلیمنٹ میں اور عوام کے درمیان جدوجہد جاری رکھیں گے۔
چیف جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس پی وی سنجے کمار اور جسٹس کے وی وشواناتھن پر مشتمل بینچ نے 100 سے زائد عرضیوں کی سماعت کی جو کہ پارلیمنٹ سے 4 اپریل کو منظور شدہ اور 8 اپریل کو صدر جمہوریہ کی منظوری حاصل کرنے والے وقف ترمیمی قانون کے خلاف دائر کی گئی تھیں۔
شبیر علی کی نمائندگی سینئر وکلا کپل سبل اور سلمان خورشید کر رہے ہیں۔سماعت کے دوران عدالت نے وقف کونسل میں غیر مسلموں کی شمولیت پر سوالات اٹھائے اور مرکز سے پوچھا کہ کیا وہ ہندو مذہبی اداروں میں بھی ایسی ہی شمولیت کی اجازت دے گا؟ عدالت نے ضلع کلکٹروں کو وقف جائیدادوں سے متعلق تنازعات کے فیصلے کے لیے دیے گئے اختیارات پر بھی تشویش ظاہر کی اور پرانی مساجد اور صدیوں پرانی مذہبی عمارات کی دستاویزات کے مسئلے پر توجہ دلائی۔
سینئر وکلاء کپل سبل، راجیودھون، ابھیشیک منو سنگھوی اور سی یو سنگھ نے عرضی گزاروں کی نمائندگی کرتے ہوئے کہا کہ یہ ترامیم آئین کے آرٹیکل 26 کی خلاف ورزی کرتی ہیں، جو مذہبی اقلیتوں کو اپنے مذہبی امور خود چلانے کا حق دیتا ہے۔
مرکز کی طرف سے پیش ہونے والے سالیسٹر جنرل نے ترامیم کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ان کا مقصد شفافیت کو بہتر بنانا ہے، لیکن عدالت نے کہا کہ وہ دو اہم نکات پر عبوری ہدایات جاری کرنے پر غور کرے گی — وقف بورڈ کی رکنیت کو مسلمانوں تک محدود رکھنے (سوائے ex officio ارکان کے) اور وقف بائی یوزر جائیدادوں کو کسی بھی جبری کارروائی سے تحفظ فراہم کرنے کے بارے میں۔سماعت 17 اپریل بروز جمعرات دوبارہ ہوگی۔