سپریم کورٹ پیر کو وقف ترمیمی ایکٹ 2025 پر عبوری حکم سنائے گی

سپریم کورٹ پیر کو وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 کی آئینی حیثیت کو چیلنج کرنے والی درخواستوں پر عبوری حکم سنائے گی۔ چیف جسٹس بی آر گوائی اور جسٹس اے جی مسیح پر مشتمل بینچ نے دونوں فریقین کے دلائل سننے کے بعد 22 مئی کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
ان درخواستوں میں آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اور حیدرآباد کے رکن پارلیمنٹ بیرسٹر اسد الدین اویسی ؛ کل ہند مسلم پرسنل لا بورڈ کی درخواستیں بھی شامل ہے۔ درخواست گزاروں نے ترمیم شدہ قانون کی کئی دفعات پر اعتراض کیا ہے، جن میں عدالت یا عوامی استعمال یا دستاویز کے ذریعے وقف قرار دی گئی جائیداد کو ’’ڈی نوٹی فائی‘‘ کرنے کا اختیار، ریاستی وقف بورڈز اور مرکزی وقف کونسل کی تشکیل، اور وہ شق بھی شامل ہے جس کے تحت کلکٹر جب زمین کی ملکیت کی چھان بین کریں تو وقف جائیداد کو وقف نہ ماننے کا جواز دیا گیا ہے۔
فیصلہ محفوظ کرنے سے پہلے تین روز تک درخواست گزاروں کے وکلا اور مرکز کی نمائندگی کرنے والے سالیسٹر جنرل تشار مہتا کے دلائل سنے گئے۔
مرکز نے ایکٹ کا بھرپور دفاع کرتے ہوئے کہا کہ وقف بذاتِ خود ایک ’’سیکولر تصور‘‘ ہے اور آئینی بالادستی کے اصول کی بنیاد پر اس پر حکم امتناع عائد نہیں کیا جا سکتا۔ مہتا نے مؤقف اختیار کیا کہ اگرچہ وقف ایک اسلامی تصور ہے لیکن یہ اسلام کا لازمی حصہ نہیں بلکہ بنیادی طور پر سیکولر ہے۔
حکومت نے اپنے حلف نامے میں بدعنوانیوں کے خدشات کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ 2013 کی ترمیم کے بعد وقف اراضی میں ’’حیران کن‘‘ 116 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے اور الزام لگایا کہ خانگی اور سرکاری زمینوں کو بھی غلط طور پر وقف قرار دیا جا رہا ہے حالانکہ 1923 سے رجسٹریشن لازمی ہے۔