سپریم کورٹ کا طلاق حسن کو کالعدم قرار دینے پر غور – 5 رکنی بنچ سے رجوع کرنے کا امکان

سپریم کورٹ نے چہارشنبہ کو اشارہ دیا کہ طلاقِ حسن کے رواج کو کالعدم قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس طریقہ کے تحت مسلم شوہر تین ماہ تک ہر ماہ ایک بار ‘طلاق’ کہہ کر نکاح ختم کر سکتا ہے۔ عدالت میں یہ سماعت 2022 میں صحافی بے نظیر حنا کی جانب سے دائر کردہ عرضی پر ہوئی، جس میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ طلاقِ حسن غیر منطقی، من مانی ہے اور آئین کے آرٹیکل 14، 15، 21 اور 25 کی خلاف ورزی کرتی ہے، لہٰذا اسے غیر آئینی قرار دیا جائے۔ درخواست میں طلاق کے لیے مذہب اور جنس سے بالاتر یکساں اصول بنانے کی مانگ بھی کی گئی۔
سماعت کے دوران جسٹس سوریہ کانت، جسٹس اُجّل بھویاں اور جسٹس این کوتیشور سنگھ پر مشتمل بینچ نے کہا کہ چونکہ یہ معاملہ سماج پر گہرے اثرات رکھتا ہے، اس لئے عدالت کو اصلاحی اقدام کرنا پڑ سکتا ہے۔ بینچ نے یہ بھی اشارہ دیا کہ کیس کو پانچ رکنی آئینی بینچ کے سپرد کیا جا سکتا ہے اور فریقین سے کہا کہ وہ بنیادی قانونی نکات تحریری طور پر پیش کریں۔ جسٹس کانت نے ریمارکس دیتے ہوئے سوال کیا کہ خواتین کی عزت و احترام کے خلاف ایسے طریقہ کو کسی مہذب سماج میں کیسے برقرار رہنے دیا جا سکتا ہے اور کہا کہ اگر کوئی رواج امتیازی ہو تو عدالت کو مداخلت کرنی پڑتی ہے۔
عرضی میں کہا گیا کہ بے نظیر حنا کو ان کے شوہر نے جہیز کے معاملے پر وکیل کے ذریعہ طلاقِ حسن کا نوٹس بھیجا جبکہ سسرالی افراد نے مبینہ طور پر انہیں ہراساں بھی کیا۔ درخواست گزار نے بتایا کہ وکیل کے ذریعے بھیجے گئے نوٹس کے باعث وہ قانونی طور پر طلاق ثابت نہیں کر پا رہیں جبکہ شوہر دوسری شادی کر چکا ہے، جس کی وجہ سے بچے کے اسکول داخلے کے دوران بھی انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ شوہر کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ اسلام میں کسی شخص کو مقرر کر کے طلاقِ حسن کا نوٹس بھیجنا معروف طریقہ ہے، جس پر عدالت نے سوال کیا کہ براہِ راست رابطہ کیوں نہ کیا گیا اور شوہر کو اگلی سماعت پر حاضر ہونے کا حکم دیا۔
جسٹس کانت نے کہا کہ درخواست گزار چونکہ صحافی ہیں اس لیے عدالت تک پہنچ پائیں، لیکن دور دراز علاقوں میں کئی خواتین ایسے معاملات میں خاموشی سے تکلیف برداشت کر رہی ہیں۔ عرضی میں یہ بھی دلیل دی گئی کہ یک طرفہ اور عدالت سے باہر طلاق انسانی حقوق اور مساوات کے خلاف ہے، اسلام میں ناگزیر نہیں اور چونکہ اس اختیار کا استعمال صرف مرد کر سکتا ہے، اس لیے یہ امتیازی ہے۔ ساتھ ہی کہا گیا کہ مذہبی آزادی مطلق نہیں اور ذاتی قوانین میں وقت کے ساتھ اصلاح ضروری ہے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ 2022 میں اسی معاملے پر ایک اور بینچ نے ابتدائی طور پر کہا تھا کہ طلاقِ حسن بادی النظر میں غلط نہیں ہے اور اسے کسی ایجنڈے کے لیے استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔



