نیشنل

سپریم کورٹ نے مجلس پارٹی کی رجسٹریشن منسوخی کی درخواست مسترد کر دی،

سپریم کورٹ نے کل ہند آل  مجلس اتحاد المسلمین  کی رجسٹریشن منسوخ کرنے کی درخواست کو آج مسترد کر دیا۔ تاہم عدالت نے یہ زبانی تبصرہ کیا کہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے مذہبی یا ذات پات کی بنیاد پر ووٹ مانگنا ایک "خطرناک ” ہے۔

 

جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس جوئی مالیا بگچی پر مشتمل بینچ نے تروپتی نرسمہا موری کی جانب سے دائر اس درخواست پر غور کرنے سے انکار کیا، جس میں دہلی ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کیا گیا تھا۔ دہلی ہائی کورٹ نے بھی مجلس پارٹی کی رجسٹریشن کو منسوخ کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

 

بینچ نے واضح کیا کہ ’ابھیرام سنگھ فیصلے‘ کے مطابق مذہب کے نام پر ووٹ مانگنے والے امیدوار کے خلاف تو انتخابی عرضی دائر کی جا سکتی ہے، لیکن کسی سیاسی جماعت کے خلاف نہیں۔

 

درخواست گزار کے وکیل وشنو شنکر جین نے استدلال کیا کہ مجلس پارٹی کا دستور آئینِ ہند، خاص طور پر سیکولرازم کے اصول کے منافی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر وہ انتخابی کمیشن کے پاس جا کر ہندو نام سے ایک جماعت رجسٹر کروانا چاہیں اور ویدوں و اپنشدوں کی تعلیم کو فروغ دینے کی بات کریں تو اجازت نہیں ملے گی، جبکہ مجلس اپنے دستور میں مسلمانوں میں اسلامی تعلیمات کے فروغ کی بات کرتی ہے۔

 

اس پر جسٹس سوریہ کانت نے جواب دیا کہ "آئین اقلیتوں کو کچھ مخصوص حقوق دیتا ہے، اور اگر کوئی پارٹی اپنے منشور میں ان آئینی حقوق کے تحفظ کی بات کرتی ہے تو یہ خلافِ قانون نہیں۔ کل ہند مجلس اتحاد المسلیمن کا دستور آئین ہند کے خلاف نہیں ہے۔”

 

عدالت نے اگرچہ اس مخصوص معاملے کو خارج کر دیا، تاہم درخواست گزار کو اجازت دی کہ وہ مستقبل میں کسی خاص پارٹی کا نام لیے بغیر اس مسئلے پر عمومی نوعیت کی آئینی رِٹ درخواست داخل کر سکتا ہے۔

 

متعلقہ خبریں

Back to top button