سپریم کورٹ نے عمر خالد، شرجیل امام سمیت دیگر ملزمین کی ضمانت درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کر لیا

سپریم کورٹ نے عمر خالد، شرجیل امام سمیت دیگر ملزمین کی ضمانت درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کر لیا
نئی دہلی — سپریم کورٹ نے چہارشنبہ کے روز طلبہ تنظیموں کے قایدین عمر خالد، سابق جے این یو اسکالر شرجیل امام اور دیگر کئی ملزمین کی ضمانت درخواستوں پر اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا۔ یہ تمام افراد فروری 2020 کے شمال مشرقی دہلی فسادات سے جڑی مبینہ "وسیع سازش” کے کیس میں ملزم نامزد ہیں۔
جسٹس ارویند کمار اور جسٹس این وی انجاریہ پر مشتمل دو رکنی بینچ نے طویل سماعت مکمل کی، جس میں سینیئر وکلا کپل سبل، ابھیشیک منو سنگھوی، سدھارتھ دیو، سلمان خورشید اور سدھارتھ لوتھرا نے ملزمین کی ضمانت کے حق میں دلائل پیش کئے۔
مرکزی حکومت اور دہلی پولیس کی نمائندگی سولیسٹر جنرل تشار مہتا اور ایڈیشنل سولیسٹر جنرل ایس وی راجو نے کی۔
دہلی پولیس نے ضمانت کی سخت مخالفت کرتے ہوئے 2020 کے فرقہ وارانہ تشدد کو "سوچی سمجھی، منظم اور مالی مدد یافتہ سازش” قرار دیا، جس کا مقصد بھارت کی خودمختاری کو نقصان پہنچانا تھا۔ استغاثہ نے مؤقف اختیار کیا کہ یہ فسادات کوئی اچانک بھڑکنے والا واقعہ نہیں تھا بلکہ سی اے اے اور این آر سی کے خلاف احتجاج کے دوران جان بوجھ کر بھڑکایا گیا منظم تشدد تھا۔ اس تشدد میں 53 افراد ہلاک ہوگئے جبکہ 700 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔
عمر خالد، شرجیل امام اور دیگر ملزمین پر غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ (UAPA) سمیت تعزیراتِ ہند کی مختلف سنگین دفعات کے تحت مقدمات درج ہیں۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ یہ افراد "ماسٹر مائنڈ” تھے جنہوں نے مبینہ طور پر ایسے احتجاج منظم کئے جن سے بڑے پیمانے پر تشدد پھوٹ پڑا۔
ملزمین نے دہلی ہائی کورٹ کے 2 ستمبر کے اس فیصلہ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے جس میں ان کی ضمانت کی درخواستیں مسترد کردی گئی تھیں۔ عرضی گزاروں کا کہنا تھا کہ بغیر ٹرائل کے طویل عرصے تک قید رکھنا ان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے اور ان کے خلاف ثبوت زیادہ تر حالات و واقعات، واٹس ایپ چیٹس اور تقاریر پر مبنی ہیں، جو آئین کے آرٹیکل 19(1)(a) کے تحت محفوظ ہیں۔
دونوں جانب کے دلائل سننے کے بعد بینچ نے فیصلہ محفوظ کر لیا۔ اب یہ دیکھا جانا باقی ہے کہ چار برس سے زائد عدالتی تحویل میں رہنے کے بعد کیا ملزمین کو ضمانت پر رہائی ملتی ہے یا نہیں۔



