وقف ترمیمی بل پر سپریم کورٹ کا عبوری فیصلہ – وقف بورڈ میں ہندو ممبر کو شامل کرنے پر شدید برہمی – حکومت سے پوچھا کہ ہندو بورڈ میں مسلمان کو قبول کیا جائے گا ؟

سپریم کورٹ نے وقف (ترمیمی) قانون 2025 پر عبوری فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ جو جائیدادیں عدالت یا عوامی استعمال کی بنیاد پر وقف قرار دی گئی ہیں، ان کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ عدالت نے مزید کہا کہ وقف بورڈ اور مرکزی وقف کونسل کے تمام ارکان مسلمان ہی ہوں گے، البتہ جو افراد سرکاری حیثیت سے شامل کیے جائیں (ایکس آفیشیو ممبران)، ان کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو سکتا ہے۔
چیف جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس سنجے کمار اور جسٹس ویسواناتھن پر مشتمل بینچ 73 درخواستوں پر سماعت کر رہا ہے جن میں نئے وقف قانون کو چیلنج کیا گیا ہے۔ عدالت نے یہ بھی واضح کیا کہ کلکٹر اپنی کارروائی جاری رکھیں گے، مگر جب تک وہ زمین پر انکوائری مکمل نہیں کرتے، اس جائیداد کو وقف نہیں مانا جائے گا۔
سماعت کے دوران عدالت نے مرکزی حکومت سے سخت سوالات کیے، خاص طور پر ان جائیدادوں کے بارے میں جو ’وقف بایوزر‘ یعنی عوامی استعمال سے وقف قرار دی گئی ہیں۔ عدالت نے کہا کہ اگر ایسی جائیدادوں کو ختم کیا گیا تو یہ مسئلے پیدا کرے گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگرچہ کہیں کہیں اس نظام کا غلط استعمال ہوا ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ تمام وقف جائیدادیں جعلی ہیں۔
عدالت نے یہ بھی نشاندہی کی کہ چودھویں سے سولہویں صدی کے درمیان تعمیر شدہ کئی مساجد کے پاس سیل ڈیڈز نہیں ہوں گے، اس لیے انہیں رجسٹر کرنا مشکل ہے۔ اسی لیے ایسی جائیدادوں کو ختم کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔
سماعت کے دوران عدالت نے مغربی بنگال کے کچھ علاقوں میں اس قانون پر جاری تشدد پر بھی تشویش ظاہر کی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ معاملہ عدالت میں ہے اور وہی اس پر فیصلہ کرے گی۔
عدالت کل بھی اس معاملے پر سماعت جاری رکھے گی۔