نیشنل

عصمت ریزی سے بچنے کیلئے خواتین گھروں پر ہی رہیں۔ گجرات پولیس کے پوسٹر پر تنازعہ

نئی دہلی ۔گجرات کے احمد آباد شہر میں ٹریفک پولیس کے ذریعہ لگائے گئے پوسٹرس نے ایک نیا تنازعہ شروع کر دیا ہے۔ پوسٹر میں مبینہ طور پر خواتین سے گزارش کی گئی تھی کہ وہ عصمت دری سے بچنے کے لیے گھروں پر ہی رہیں۔

 

 

اب اس پوسٹر نے اپوزیشن پارٹیوں کو حکمراں بی جے پی پر حملہ کا موقع فراہم کر دیا ہے۔ کانگریس نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر یہ سوال پوچھ لیا ہے کہ ’’پولیس کا کام حفاظت کرنا ہے یا ڈرانا؟‘‘جن پوسٹرس پر تنازعہ ہوا ہے، وہ احمد آباد میں کئی مقامات پر لگائے گئے تھے، جو تنازعہ کے بعد ہٹا لیے گئے ہیں۔ ٹریفک پولیس کے ذریعہ اسپانسر ان پوسٹرس میں لکھا گیا تھا کہ

 

’’دیر رات پارٹیوں میں شامل نہ ہوں، آپ کے ساتھ عصمت ریزی یا اجتماعی عصمت ریزی ہو سکتی ہے۔‘‘ ایک پوسٹر میں یہ بھی لکھا گیا تھا کہ ’’اپنے دوستوں کے ساتھ سنسان مقامات پر نہ جائیں، کہیں آپ کے ساتھ عصمت ریزی یا اجتماعی عصمت ریزی ہو گئی تو؟‘‘ سولا اور چنڈولیا علاقوں میں خاص طور سے ایسے پوسٹرس دیکھے گئے، جو اب ہٹائے جا چکے ہیں۔

 

 

گجرات کانگریس صدر امت چاؤڑا نے اس طرح کے پوسٹرس پر براہ راست گجرات حکومت پر حملہ کر دیا ہے۔ انھوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر لکھا ہے کہ ’’ریاست کے وزیر اعلیٰ بھوپیندر پٹیل کے ماتحت وزارت داخلہ اور پولیس گجرات کی بیٹیوں کی بے عزتی کر رہے ہیں اور اپنی ناکامی کا اعتراف کر رہے ہیں۔ وہ یہ مان رہے ہیں کہ گجرات میں بیٹیاں محفوظ نہیں ہیں۔ شرم آنی چاہیے۔‘‘ وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’’گجرات کے لوگ، جنھیں اس بات پر فخر ہے

 

 

کہ ان کی بیٹیاں دیر رات بھی گربا کھیل کر تنہا گھر آتی ہیں، آج پولیس پوسٹر لگا کر یہ جانکاری دے رہی ہے کہ گجرات میں بیٹیاں محفوظ نہیں ہیں، آپ کو خود اپنی بیٹیوں کی حفاظت کرنی ہوگی۔‘‘عآپ نے بھی اس معاملے میں ریاستی حکومت کو نشانہ بنایا ہے۔ پارٹی کا کہنا ہے کہ ’’ان پوسٹرس سے ریاست میں خواتین کی سیکورٹی سے متعلق دعووں کی قلعی کھل گئی ہے۔ گجرات میں بی جے پی حکومت

 

 

خواتین کی خود مختاری کی بات کرتی ہے، لیکن حقیقت اس سے مختلف ہے۔‘‘ عآپ کا یہ بھی کہنا ہے کہ گزشتہ 3 سالوں میں ریاست میں عصمت دری کے 6500 سے زیادہ اور اجتماعی عصمت دری کے 36 واقعات پیش آئے ہیں۔ اس طرح ریاست میں روزانہ 5 سے زیادہ عصمت دری کے واقعات ہوئے۔

متعلقہ خبریں

Back to top button