مضامین

ترجمہ کے اصول شجیع اللہ فراست

شجیع اللہ فراست

ترجمہ کے لئے کوئی باقاعدہ اور بندھے ٹکے اصول متعین نہیں ہیں۔ یہ ایک افسوس کی بات ہے کہ دنیابھرمیں دنیا کی لاتعداد زبانوں سے ترجمہ کا عمل صدیوں سے انجام دیاجارہا ہے لیکن اس کے باوجود ترجمہ کے کوئی خاص اصول نہیں بنائے جاسکے جن پرسب متفق ہو لیکن ترجمہ کے لئے کچھ غیر تحریر شدہ اور غیر متفقہ اصول ضرور پائے جاتے ہیں۔ ترجمہ کے لئے بعض ضروری اصول وضوابط پرعمل لازمی ہیں۔ شر ط اول تویہ ہے کہ ترجمہ نگار کو دونوں زبانوں یعنی سورس لینگویج اور ٹارگٹ لینگویج دونوں میں دسترس حاصل ہونی چاہئے بالخصوص جس زبان میں ترجمہ کیاجارہا ہے اس پرمترجم کو قدرت حاصل ہونا ضروری ہے۔ ترجمہ نگار کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ جس زبان سے ترجمہ کیاجارہا ہے یعنی سورس لینگویج اس سے کماحقہ واقفیت ہو۔ اس کے علاوہ جس موضوع یا مضمون کا ترجمہ کیاجارہا ہے اس سے بھی ترجمہ نگار کا واقف ہونا ضروری ہے اگر ان شرائط کی تکمیل نہ ہوتو ترجمہ نگار اپنے کام سے انصاف نہیں کرسکے گا۔ اردوزبان کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس میں ارتقاء اور تحقیق کا عمل معطل ہے۔ اس کی وجہ سے نئی اصطلاحات وضع نہیں کی جارہی ہے ۔ نئی اصطلاحات کی تدوین کا کام نہ ہونے کی وجہ سے ترجمہ نگار کو بالخصوص تکنیکی تراجم میں مشکل پیش آسکتی ہے۔ اس کانتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ اردوترجمہ نگار اپنی اپنی دانست میں ایک ہی اصطلاح کے کئی تراجم کررہے ہیں ۔شاید اس کے سوا اردو مترجمین کے سامنے کوئی چارہ نہیں ہے۔ میری دانست میں اگر اردوزبان میں قابل قبول اور متفقہ اصطلاحات نہ ہوں تو ایسی اصطلاحات استعمال کی جاسکتی ہیں جو عام فہم ہو یا اگر سورس لینگویج بالخصوص انگریزی کی اصطلاحات مقبول عام اور عام فہم ہوتوان کا استعمال کیاجاسکتا ہے۔ مثال کے طورپر ہمارے معاشرہ میں انگریزی کے کئی الفاظ ایسے ہیں جنہیں عوام میں قبولیت حاصل ہوچکی ہے۔

 

مثال کے طور پرایک لفظ جس کا بہت زیادہ چلن ہے وہ سیلفی ہے ۔ اگرہم سیلفی کا اردوترجمہ کھوجنے اوراستعمال کرنے کی کوشش کریں گے توشائد اس سے بات نہیں بنے گی اور وہ مضحکہ خیز بھی ہوسکتا ہے۔ سیلفی جیسے الفاظ جو ہر ایک کیلئے قابل فہم اور قابل قبول ہے ترجمہ میں استعمال کئے جاسکتے ہیں۔ یہ بہت ضروری ہے کہ آپ قابل قبول انگریزی الفاظ استعمال کریں نہ کہ ایسے الفاظ جنہیں عوام نے سند قبولیت حاصل نہ ہو۔ مثال کے طورپر آپ کینسر یا ایڈس جیسے عام فہم لفظ ضرور استعمال کرسکتے ہیں لیکن آپ شیزوفرینیا بالکل نہیں لکھ سکتے جس سے بیشتر اردوقارئین شائد مانوس نہ ہوں۔ ایک اچھے ترجمہ کے چند اصولوں میں یہ شامل ہے کہ ترجمہ میں سورس لینگویج کے الفاظ کا ایسا ترجمہ نہیں ہونا چاہئے جو قاری کیلئے گراں ہوں۔ ترجمہ کا ایک اصول یہ بھی ہے کہ اصل مواد کے معنی ومفاہیم نہیں بدلنے چاہئے۔ اگرایسا ہوتا ہے تویہ اصل مصنف یا مضمون نگار کے ساتھ زیادتی ہوگی۔ کسی بھی ترجمہ پر اصل تصنیف کا گمان ہونا چاہئے۔ ورنہ قاری تکنیکی یا مشینی انداز سے اکتا جائے گا۔ ترجمہ نگار کو مصنف کے منفرد اسلوب اورانداز کابھی مظہرہونا چاہئے۔اگرچہ یہ ہر ترجمہ میں ممکن نہیں ہے لیکن یہ مستحسن ہے اوراس سے ترجمہ نگار کی علمی قابلیت کا اظہار ہوتا ہے۔ ترجمہ میں اصل مواد سے کچھ کمی وبیشی ہوسکتی ہے لیکن مرکزی خیال میں کمی وبیشی ناقابل معافی ہے۔ نظم کا ترجمہ نثر کے ترجمہ سے کسی قدر بلکہ کافی مشکل ہوتا ہے۔ اگرترجمہ نگار نظم کا ترجمہ نظم میں کرنے سے قاصر ہے توپھر سورس لینگویج کی شاعری کا ترجمہ ٹارگٹ لینگویج کی نثر میں کیاجاسکتا ہے اوراس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔

 

مختلف اقسام کے تراجم میں مختلف اصولوں کااطلاق ہوسکتا ہے۔ مثلاً علمی تراجم کے اصول اور ادبی تراجم کے اصول مختلف ہوسکتے ہیں ۔ترجمہ چاہے کسی بھی نوعیت کا ہو شرط اول یہ ہے کہ ترجمہ نگار اصل زبان اور موضوع سے اچھی طرح واقف ہو۔ دونو ں زبانوں کی واقفیت بالخصوص ٹارگٹ لینگویج اور مہارت کے بغیرترجمہ سے انصاف نہیں کیاجاسکتا ہے۔ ترجمہ نگار کی یہ ایک اہم صفت ہونی چاہئے کہ وہ اصل زبان یعنی سورس لینگویج کے قواعد ،اصطلاحات ،محاوروں ،ضرب الامثال ،مضمون ،متعلقہ تحریر کے تاریخی وتہذیبی پس منظر سے واقف ہو ۔اصل مواد اور سورس لینگویج میں ترجمہ نگار کاعلم جتناوسیع ہوگا اس کا ترجمہ اتنا ہی معیاری اوراعلیٰ ہوگا اور اس سے قاری کی دلچسپی برقرار رہے گی۔ترجمہ نگار کیلئے یہ بہت ضروری ہے کہ وہ اپنا ایک اسلوب بھی رکھتا ہو۔ اس سے اسے ترجمہ میں آسانی ہوگی ۔ایک اچھے ترجمہ نگار کو ٹارگٹ لینگویج پرمہارت حاصل رکھنا بہت ضروری ہے بالخصوص اس زبان کے ذخیرہ الفاظ سے اسے مالامال ہونا چاہئے۔ حسب ضرورت اس میں اصطلاحات وضع کرنے کی صلاحیت بھی ہونی چاہئے۔ اس کے علاوہ ٹارگٹ لینگویج کے محاوروں،تراکیب ،اصطلاحات اور ضرب الامثال سے اس کی واقفیت لازمی ہے۔

 

ایک اچھے ترجمہ نگار کیلئے یہ ضروری ہے کہ وہ سورس لینگویج یعنی اصل زبان کی تہذیب سے واقف ہو۔ ترجمہ ایک ذمہ داری کا کام ہے۔ اس میں ایک تہذیب کے تصورات کو دوسری تہذیب کے پیکرمیں ڈھالنا ہوتا ہے۔ ترجمہ نگار کا کام صرف لفظ پرلفظ بیٹھانا نہیں ہوتا بلکہ ایک تہذیب کے مفہوم کودوسری تہذیب کے قاری کے لئے قابل فہم بنانا ہوتا ہے۔ ترجمہ نگار سورس لینگویج اور ٹارگٹ لینگویج میں جس قدر وسیع مطالعہ سے لیس ہوگا اتنا ہی اس کے ترجمہ میں معیار پیدا ہوگا۔ ترجمہ نگار کو اس بات کویقینی بنانا چاہئے کہ وہ ٹارگٹ لینگویج میں روانی برقرار رکھے۔ ترجمہ کے کئی اقسام ہوتے ہیں ۔ جن میں علمی،ادبی،مذہبی،قانونی اور صحافتی تراجم ہیں۔ ان تمام اقسام کے لئے علحدہ اصول بھی ہوتے ہیں۔ علمی ترجموں میں سائنس ،ٹیکنالوجی،جغرافیہ،معاشیات،سماجیات ، انجینئرنگ وغیرہ آتے ہیں۔ علمی ترجموں کا اصول یہ ہے کہ ترجمہ نگار سورس لینگویج کے مواد پر بالکل بھی مفاہمت نہ کرے اور اس طرح کے ترجمے ترجمہ نگار کی جانب سے تخلیق نہ ہوں۔ ان میں نفس مضمون کی ترسیل سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ اس کے سیاق وسباق اور دیگر پہلوئوں سے قاری کوواقف کروانا ترجمہ نگار کی ذمہ داری نہیں ہوتی کیوں کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ ترجمہ نگار ان موضوعات پرمہارت رکھتا ہو۔ علمی ترجموں میں سورس لینگویج کے مفہوم اور خیال کے درست فہم سے قاری کوواقف کروانا سب سے زیادہ ضروری ہے۔ اگر ان پیچیدہ مضامین کی اصطلاحات اردوزبان میں دستیاب ہوں توکوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن اگر اصطلاحات دستیاب نہ ہو تو عام فہم اصطلاحات وضع کی جاسکتی ہیں بصورت دیگر انگریزی اصطلاحات سے کام چلایا جاسکتا ہے۔

ادبی تراجم کے بھی کچھ اصول ہیں۔ ادبی تراجم بنیادی طورپر دوطرح کے ہوتے ہیں۔ ایک نظم اور ایک نثر ۔ نثری تراجم نسبتاً آسان ہوتے ہیں کیوں کہ اس میںبات کو اشاروں کنایوں میں نہیں بلکہ راست طورپر کہاجاتا ہے جبکہ نظم میں شاعر اشاروں کنایوں میں بہت کچھ کہہ جاتا ہے۔ اس طرح نظم کے ترجمے ،نثر کے ترجمے سے بہت مختلف ہوتے ہیں۔ اگر ترجمہ نگار نظم کے ترجمے کونظم میں پیش کرنے سے قاصر ہے تونظم کے ترجمہ کو نثر میں پیش کرنے سے گریز نہیں کرنا چاہئے ۔ نظم میں شاعر سورس لینگویج کے دلکشی ،جمالیاتی کیفیت اور موسیقیت سے استفادہ کرتا ہے ۔ٹارگٹ لینگویج میں اس کی روح کونظم میں برقرار رکھنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہے۔ علامہ اقبال کے شکوہ وجواب شکوہ ترجمہ کئی اصحاب علم نے کیا ہے لیکن مشہور انگریزی مصنف خوشونت سنگھ نے جوترجمہ کیا ہے اس میں مجھے ایساگمان ہوا کہ وہ اقبال کے کلام کی روح اورجذبہ تک نہیں پہنچ سکے اور انہوں نے بعض اشعار میں سطحی مفہوم کوپیش کیا ہے جوشائد اقبال کے مدحوں کو کچھ گراں گذرے۔

 

مذہبی تراجم کے بھی کچھ اپنے اصول ہوتے ہیں ۔مذہبی کتابیں جیسے قرآن،بائبل ،گیتا اور کتب احادیث تقدس کی حامل ہوتی ہے ۔ اس سے نہ صرف عقائد وابستہ ہوتے ہیں بلکہ اس معاملہ میں بیشترافراد حساس ہوتے ہیں۔ مذہبی تراجم میں دیگرتراجم کی بہ نسبت احتیاط لازمی ہے۔ مذہبی تراجم میں مذہبی اصطلاحات کا خاص خیال رکھنا پڑتا ہے کیوں کہ اگر مذہبی تراجم میں کوئی اونچ نیچ ہوجائے تواس سے مترجم ،ناشر اور اداروں کی ساخت دائو پرلگ جاتی ہے۔ مذہبی کتابوں میں ایک جاہ وجلال، شان وشوکت، تقدس وپاکیزگی ہوتی ہے۔ ایسے ترجموں میں اس بات کاخیال رکھنا چاہئے کہ اس کا اسلوب وانداز بھی اصل تحریر واسلوب کے شایان شان ہوتاکہ قاری پر ایک کیفیت طاری ہوسکے اور تقدس برقرار رہ سکے۔ترجمہ کی ایک اورقسم قانونی تراجم ہے۔ اس کے بھی کچھ اصول ہیں۔ قانون کی زبان کافی جامع اور محتاط ہے۔ بالخصوص دستور ہند کی زبان انگریز دور کے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ1935سے متاثر ہے۔ قانونی ترجمے میں ایک لفظ کے ادھر ادھرہونے سے مفہوم میں فرق آسکتا ہے۔ اس کے علاوہ اگرکوئی غلطی ہوجائے تو قانونی کاروائی کابھی احتمال رہتا ہے ۔اس وجہ سے قانونی تراجم کے وقت ترجمہ نگار کو انتہائی ہوش مندی اور ذمہ داری سے سورس لینگویج کوٹارگٹ لینگویج میں منتقل کرنا ہوتا ہے۔ قانونی تراجم کا بنیادی اصول ہے کہ وہ اصل متن کو حتی الامکان اسی شکل میں پیش کرے ۔بیشترافراد قانونی تراجم میں لفظی ترجمہ کے اصول پر عمل کرتے ہیں ۔شائد بیشتر افراد کیلئے یہی عافیت کی راہ ہے۔

 

صحافتی تراجم ،تکنیکی تراجم سے آسان ہوتے ہیں ۔ میری مراد علمی تراجم،ادبی تراجم،مذہبی تراجم اور قانونی تراجم سے ہے۔صحافی تراجم کا اصول یہ ہے کہ وہ آسان اور عام فہم زبان میں ہو کیوں کہ علمی ، ادبی، مذہبی اور قانونی تراجم کے قاری زیادہ نہیں ہوتے تاہم عوام کا ایک بڑا طبقہ روزانہ اخبارات ورسائل کامطالعہ کرتا ہے۔ اخبار کے قاری کا فہم اور علمی استعداد علمی، ادبی، مذہبی اور قانونی تراجم کے قاری کی علمی سطح سے بہت کم ہوتا ہے۔اسی لئے سادہ زبان صحافتی تراجم میں قابل ترجیح ہے۔ صحافی تراجم کیلئے یہ ضروری ہے کہ ترجمہ نگار پیچیدہ جملوں سے گریز کرے اور اگر ممکن ہوتوجملوں کو چھوٹا رکھیں ۔اس کے لئے جملوں کو توڑا بھی جاسکتا ہے ۔ترجمہ میں اگر عام بول چال کی زبان بھی استعمال کی جائے تو کوئی عار نہیں۔ اگرچہ ترجمہ کیلئے کوئی معیاری اصول وضع نہیںکئے گئے لیکن اوپر بیان کئے گئے چند اصولوں کو پیش نظر رکھاجائے تو ترجمہ نگار ایسے تراجم پیش کرسکتے ہیں جو قاری کی دلچسپی کا باعث ہوسکتے ہیں اور اس سے اصل مضمون نگار یا تخلیق کار کے پیغام کوبھی موثرانداز میں پیش کیاجاسکتا ہے اوریہی ایک اچھے ترجمہ نگار کی خوبی ہے۔

 

 

متعلقہ خبریں

Back to top button