اسپشل اسٹوری

ماونواز تنظیم کو زبردست دھکہ – پولٹ بیورو کے سینر رکن وینوگوپال راؤ 60 کارکنوں کے ساتھ ہتھیار ڈال دئے

ماؤ نواز تحریک کو ایک غیر متوقع اور بڑا دھچکہ لگا ہے۔ ماؤ نواز پارٹی کی مرکزی کمیٹی اور پولٹ بیورو کے سینئر رکن وینوگوپال راؤ عروف “سونو” نے مہاراشٹرا کے گڑچرولی میں تقریباً 60 کارکنوں کے ہمراہ پولیس کے سامنے خودسپردگی اختیار کرلی۔ وینوگوپال راؤ نے اپنے بھائی کشن جی ( کوٹیشور راؤ) کو حال ہی میں ایک خط لکھا تھا جس میں انہوں نے پارٹی کی پالیسیوں پر شدید ناراضگی ظاہر کی تھی اور کہا تھا کہ انقلاب صرف عوامی جدوجہد اور کھلے سیاسی عمل کے ذریعے ہی ممکن ہے، خفیہ مسلح لڑائی کے ذریعے نہیں۔

 

اس خط میں انہوں نے واضح کیا کہ پارٹی گزشتہ کئی برسوں سے غلط سمت میں جا رہی ہے، مرکزی کمیٹی اندرونی بحران کا شکار ہے اور مسلح جدوجہد نے ہزاروں جانوں کو ضائع کیا ہے۔ وینوگوپال راؤ نے 22 صفحات پر مشتمل اس خط میں پارٹی کے تین بنیادی نقائص  بیان کئے — (1) لینن کے اصول “بغیر پارٹی کے انقلاب ممکن نہیں” کو فراموش کرنا،

 

جس کے نتیجے میں ماؤ نواز تنظیم فوجی ڈھانچے تک محدود ہوگئی؛ (2) 2007 میں دندکارنیہ اور بہار-جھارکھنڈ کو “بیس ایریا” قرار دینے کا فیصلہ، جو ان کے مطابق ایک “نظریاتی  غلطی” تھی؛ اور (3) قانونی و عوامی تحریکوں کو مسترد کرنا، جس کے باعث عوام پارٹی سے دور ہوتے گئے۔

 

انہوں نے مثال دی کہ پارٹی نے 2006 کے جنگلاتی قانون کے تحت زمین کے حقوق دینے کی سرکاری اسکیموں کی مخالفت کی، جس سے کسانوں کو نقصان ہوا، اور یہاں تک کہ لوگوں کو آدھار کارڈ حاصل کرنے سے بھی روکا گیا۔

 

اپنے خط میں وینوگوپال راؤ نے کہا کہ “ہمیں گزشتہ کی  غلطیوں سے سبق لینا ہوگا، تحریک کو بچانا ہے، کارکنوں کو محفوظ رکھنا ہے، بے معنی قربانیوں کا سلسلہ ختم کرنا ہے اور عوامی تحریک کے ذریعہ ہی انقلاب کی راہ ہموار کرنی ہے

 

۔ انہوں نے مرکزی قیادت پر تنقید کرتے ہوئے اخلاقی طور پر ذمہ داری قبول کی اور پارٹی کے تمام کارکنوں سے معافی مانگی۔ ان کے مطابق، میں پچھلے 28 برس سے مرکزی کمیٹی میں اور 18 برس سے پولٹ بیورو میں شامل رہا، لیکن آج مانتا ہوں کہ ہماری قیادت نے تحریک کو کمزور کر دیا۔

 

وینوگوپال راؤ نے اپنے خط میں یہ بھی بتایا کہ مرحوم جنرل سکریٹری بسوراجو  نے بھی زندگی کے آخری دنوں میں امن مذاکرات کی ضرورت پر زور دیا تھا، اور اپریل 2025 تک یہ سمجھ لیا گیا تھا کہ اب ہتھیار ڈالنا ہی تحریک کو زندہ رکھنے کا واحد راستہ ہے۔ اسی سوچ کے تحت وینوگوپال راؤ نے پارٹی سے باضابطہ علیحدگی کا اعلان کرتے ہوئے اپنے ساتھیوں کو عوام کے درمیان واپس جانے کی اپیل کی۔

 

گڑچرولی پولیس کے مطابق، سونو کے ساتھ 60 ماؤ نواز کارکنوں نے بھی ہتھیار ڈال دئے، تاہم سرکاری سطح پر ابھی باضابطہ بیان جاری نہیں ہوا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق، یہ ماؤ نواز تحریک کے لئے پچاس سالہ تاریخ میں سب سے بڑا داخلی دھچکہ سمجھا جا رہا ہے، جس کے بعد پارٹی کی خفیہ کارروائیاں مزید کمزور پڑنے کا امکان ہے۔

متعلقہ خبریں

Back to top button