یہ جھگڑا وراثت کا نہیں ماں سے محبت کا تھا — دو بھائی عدالت میں ماں کی خدمت کے لئے آمنے سامنے

دنیا میں عام طور پر جب دو بھائی عدالت تک پہنچتے ہیں تو لوگ فوراً سمجھ لیتے ہیں کہ جھگڑا وراثت یا زمین کا ہوگا۔ مگر سعودی عرب کا یہ سچا واقعہ بتاتا ہے کہ کبھی کبھی عدالتوں میں بھی محبت، وفا اور خدمت کے جذبات اپنا مقدمہ لڑتے ہیں۔ ایک بوڑھا شخص حزام الغامدی اپنی کمزور ماں کی خدمت کا حق چھیننے نہیں بلکہ اسے برقرار رکھنے کے لیے عدالت میں کھڑا تھا۔
دوسری طرف اس کا چھوٹا بھائی بھی اسی جذبے کے ساتھ موجود تھا، مگر دونوں کی محبت ایک تھی—وہ اپنی ماں کو اپنے پاس رکھنا چاہتے تھے۔ حزام نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا کہ وہ برسوں سے ماں کا سہارا بنا ہوا ہے اور اس کی زندگی کا واحد سکون انہی قدموں میں ہے۔ چھوٹا بھائی لرزتی آواز میں بولا کہ حزام خود اب بہت بوڑھا ہوچکا ہے، اور وہ چاہتا ہے کہ ماں کی خدمت کا بوجھ وہ اپنے کندھوں پر اٹھائے، تاکہ بھائی آرام کر سکے۔ اس لمحے عدالت میں خاموشی نہیں، محبت کی گونج تھی۔
فیصلہ کرنا مشکل تھا۔ جج نے ماں کو بلایا اور پوچھا کہ وہ کس کے ساتھ رہنا چاہتی ہیں۔ ضعیف ماں نے لرزتے ہونٹوں اور نمی بھری آنکھوں کے ساتھ کہا: "میں کیسے انتخاب کروں؟
میرے دونوں بیٹے میری آنکھیں ہیں… ایک کو چنوں تو دوسری سے محروم ہو جاؤں گی۔” یہ جملہ سنتے ہی عدالت کا ماحول نم آنکھوں سے بھر گیا۔ ماں فیصلہ نہ کر سکی تو عدالت کو کرنا پڑا۔ جج نے چھوٹے بھائی کی بہتر صحت کو مدِنظر رکھتے ہوئے ماں کی کفالت اسے دے دی۔
فیصلہ سنایا گیا تو حزام کے قدم ڈگمگا گئے۔ وہ عدالت میں ہی سسک پڑا۔ اس لیے نہیں کہ وہ مقدمہ ہار گیا تھا، بلکہ اس لیے کہ وہ اپنی ماں کے آخری دنوں کی خدمت کا قیمتی موقع ہار بیٹھا تھا۔
ماں کو کسی کے ساتھ بھیجنے کا نہیں، بلکہ دونوں کا ماں کے قدموں میں بچھ جانے کا یہ مقدمہ تھا—اور محبت کے اس فیصلے نے یہ ثابت کر دیا کہ کچھ ہاریں بھی جیت سے زیادہ عظیم ہوتی ہیں۔



