اسپشل اسٹوری

“قصہ کبسہ کا”

ریاض ۔ کے این واصف

“کبسہ” سعودی عرب میں ملنے والی ایک مشہور ترین ڈش ہے۔ یہ ڈش چاول چکن یا گوشت سے تیار کی جاتی ہے۔ اس کو ہم عربی یا سعودی بریانی بھی کہہ سکتے ہیں۔ کبسہ بڑے سے بڑے شہر اور چھوٹے سے چھوٹے قریہ میں ملتا ہے۔ یہ دیگر ڈشوں سے نسبتاُ سستا بھی ہوتا ہے۔ سعودی عرب میں پچھلے کچھ برسوں سے ہندوستانی/پاکستانی رسٹورنٹس کی بہتات ہوگئی ہے۔ ورنہ ۹۰ کی دہائی یا اس سے قبل کبسہ کے رسٹورنٹس ہی ہوا کرتے تھے۔ اس دور میں یہاں مجرد زندگی گزارنے والوں کی روز کی غذا کبسہ ہی ہوا کرتی تھی۔ یہ کم قیمت اور مقوی غذا ہے۔ اس کو مسلسل کھانے والون کا وزن بڑھ جاتا ہے۔

کبسہ کے مقبولیت اب انسانوں سے خونخوار جانوروں تک جاپہنچی ہے۔ جس کا علم سوشیل میڈیا پر وائرل ایک خبر سے ہوا۔ خبر کچھ اس طرح تھی۔ سعودی عرب میں سوشل میڈیا پر ایک وڈیو وائرل ہوئی جس میں مقامی نوجوانوں کے ساتھ ایک چیتے کو کبسہ (عربی بریانی) کھاتے دیکھا جا سکتا ہے۔ دیکھنے والون کے لئے یہ حیرت مین ڈالنے والی تصویر تھی کہ کس طرح ایک چیتا انسانوں کے ساتھ کھل مل کر بیٹھا ہے۔

سعودی روایات کے مطابق مقامی شہری ایک بڑے تھال میں سجا ہوا کھانا اجتماعی طور پر کھاتے ہیں۔ العربیہ نیٹ کے مطابق دسترخوان پر کبسہ موجود ہے۔ ویڈیو میں سعودی نوجوان اور چیتا ایک ساتھ کبسہ کھاتے ہوئے دیکھے جاسکتے ہیں۔چیتا جب تھال کے کسی حصے کا رخ کرتا ہے تو اس جگہ بیٹھے سعودی نوجوان اپنا ہاتھ روک لیتے ہیں اور وہ دیکھتے ہیں کہ وہ کیا اور کس طرح کھا رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر سعودی قارئین نے ویڈیو پر اپنے ردعمل کا اظہار بھی کیا ہے۔

قارئین کا خیال ہے کہ جنگلی حیاتیات کی افزائش کا گھروں اور پرائیویٹ گیسٹ ہاؤسز (استرحات) میں درندے پالنے پر پابندی ہے۔ یہ سعودی قانون کی رو سے میں جرم ہے۔  نیشنل سینٹر فار وائلڈ لائف ڈیولپمنٹ کی جانب سے بھی درندے پالنے پر پابندی ہے۔ قارئین کا یہ بھی کہنا تھا کہ درندے پالنے پر پابندی کے باوجود مقامی نوجوانوں نے قانون کی خلاف ورزی کے ساتھ اپنی سلامتی کو بھی خطرے میں ڈالا ہے۔

متعلقہ خبریں

Back to top button