مضامین

مجاہد آزادی مولانا محمود الحسن دیوبندی کون تھے؟‎‎


مولانا محمود الحسن دیوبندی ایک عظیم عالم دین، ایک مشہور مجاہد آزادی اور تحریک ریشمی رومال کے بانی تھے۔ بھارت کی آزادی میں مولانا کا کردار اتناعظیم الشان ہے کہ بھارت کی آزادی کی تاریخ آپ کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی۔ یہی نہیں بلکہ موہن داس کرم چند گاندھی کو جس نے مہاتماما کا خطاب دیا تھا وہ یہی اسلامی اسکالر اور عالم دین  مولانا محمود الحسن دیوبندی تھے۔
مولانا محمود الحسن دیوبندی بریلی میں 1851ء میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام مولانا ذوالفقار علی دیوبندی تھا۔ اپنے گاؤں میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ نے دنیا کی مشہور اسلامک یونیورسٹی دارالعلوم دیوبند میں ایڈمیشن لے لیا، یہ وہی دارالعلوم دیوبند ہے جس کو ایک مشہور اسلامک عالم دین اور 1857ء کے عظیم مجاہد آزادی  مولانا محمد قاسم نانوتوی نے اس لیے قائم کیا تھا کہ وہاں انگریزوں کے خلاف لڑنے والے مجاہدین تیار کیے جائیں جو انگریزوں کے خلاف لڑ سکیں اور اس کوجس شخصیت نے  سچ کردکھایا وہ اس عظیم دانشگاہ کے سب سے پہلے طالب علم مولانا محمود الحسن دیوبندی ہی تھے۔
چنانچہ مولانا محمود الحسن دیوبندی نے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد دار العلوم دیوبند ہی میں نوکری کرلی اور وہاں پڑھانے لگے اور وہیں سے انگریزوں کے خلاف اپنی جنگ کی شروعات کی۔
سب سے پہلے 1878ء میں اپنے استاذ گرامی مولانا محمد قاسم نانوتوی کے حکم پر ”ثمرۃ التربیۃ“ نامی نوجوانوں کی ایک تنظیم بنائی جس کا مقصد انگریزوں سے لڑنے کے لیے نوجوانوں کو تیار کرنا تھا۔ اس سے بہت سے نوجوان جڑ گئے مگر انگریزوں نے اس پر پابندی عائد کردی۔ اس کے بعد 1909ء میں جمعیۃ الانصار نامی تنظیم کی بنیاد رکھی اور اسکی باگ ڈور اپنے ایک شاگرد مولانا عبیداللہ سندھی کو سونپ دیا۔ جس سے ہزاروں نوجوان جڑگئے۔ انگریزوں کی نظر اس تنظیم پر بھی پڑگئی۔ تو مولانا نے اس کو بند کردیا اور 1913ء میں نظارۃ المعارف کے نام سے ایک دوسری تنظیم بنائی جس کے پلیٹ فارم سے وہ اب کام کرنے لگے۔ پچھلے اٹھائیس سال کی محنت اور جدوجہد اب رنگ لانے لگی تھی، ہزاروں کی تعداد میں آپ کے شاگرد اور چاہنے والے آپ کی تنظیم سے جڑگئے تھے اور سب کے سب انگریزوں سے لڑنے اور اپنے دیش کی خاطر اپنی جانیں قربان کرنے کے لیے تیار تھے۔
چنانچہ مولانا محمود الحسن نے انگریزوں کو بھارت سے نکالنے کے لیے ایک عظیم منصوبہ بنایا۔ اس منصوبہ کے تحت افغانستان، سری لنکا، روس، جرمنی اور دوسرے دیشوں میں اپنے وفود بھیجے۔ اس منصوبہ کے مطابق انگریزوں سے لڑنے کے لیے دیش کے باہر فوج اکٹھا کرنا اور دوسرے ملکوں کی مدد سے بیک وقت انگریزوں پر حملہ کرنا تھا، اور ساتھ ہی دیش کے اندر بغاوت کی آگ بھڑکانی تھی، تاکہ انگریز باہر کے حملہ اور اندر کی بغاوت سے تنگ آکر بھارت چھوڑنے پر مجبور ہوجائیں۔
اس کے لیے مولانا نے سب سے پہلے اپنے شاگرد مولانا عبیداللہ سندھی کو افغانستان کی حکومت سے مدد لینے کے لے کابل بھیجا اور وہاں سرحد پر ایک عظیم الشان فوج بنانے کی ذمہ داری سونپی۔ مولانا عبیداللہ سندھی دیگر علماء کے ساتھ کابل پہنچے اور 1915ء میں وہاں ایک بھارتی حکومت قائم کی جس میں جرمنی اور افغانستان وغیرہ کا پورا تعاون حاصل تھا۔ مہندر پرتاپ سنگھ کو اس حکومت کا صدر بنایا گیا اور مولانا برکت اللہ بھوپالی کو وزیر اعظم اور مولانا عبیداللہ سندھی کو وزیر خارجہ۔ اسی بیچ مولانا محمود الحسن ترکی کے خلیفہ سے مدد لینے کے لیے حجاز (موجودہ سعودی عرب) پہنچ چکے تھے۔ وہاں کے گورنر اور ترکی کے وزیر جنگ اور وزیر بحریہ سے ملاقاتیں کیں۔ اور کئی معاہدوں پر دستخطکیے۔ ادھر افغانستان میں اور سرحد پر انگریزوں کے خلاف جنگ کی تیاری جاری تھی۔ سرحد پر نوجوانوں کو اکٹھا کیا جارہا تھا، انگریزوں کے خلاف جنگ کرنے کی تیاری اور بھارت کو آزاد کرانے کی مہم شروع ہوچکی تھی۔ اور ان سب سرگرمیوں اور حالات کو مولانا عبیداللہ سندھی نے ریشم کے ایک رومال پرلکھ کر اپنے استاذ گرامی مولانا محمود الحسن دیوبندی کو حجاز بھیجا۔ مگر بدقسمتی سے یہ خط انگریزوں کے ہاتھ لگ گیا۔ پھر کیا تھا ایک مولاناکے اس بھیانک منصوبہ نے انگریزوں کی حکومت میں زلزلہ پیدا کردیا۔ مولانا محمود الحسن اور ان کے تمام ساتھیوں کو گرفتار کرنے کا انگریزی فرمان جاری ہوگیا۔ حجاز سے مولانا محمود الحسن کے ساتھ مولانا حسین احمد مدنی، مولانا وحیداحمد مدنی، مولانا عزیز گل پیشاوری اور حکیم نصرت حسین گرفتار ہوئے اور انھیں ایشیا کے براعظم سے دور یورپ کے ایک ٹاپو’مالٹا‘ کی جیل میں پہنچادیا گیا۔
اس خط کے پکڑے جانے کے بعد جو بھارتی حکومت افغانستان میں بنی تھی، وہ بھی ادھوری رہ گئی۔ مہندر پرتاپ سنگھ اور مولانا عبیداللہ سندھی کے علاوہ بہت سارے لوگ بھارت کے باہر انگریزوں کے خلاف لڑتے رہے۔
انگریزوں نے مولانا کو مالٹا جیل میں تین سال اور سات مہینے رکھا۔ طرح طرح کی اذتیں دیں اور ہر قسم کا ظلم و ستم کیا، جب آپ 8/جون1920ء کو رہائی کے بعد بھارت پہنچے تو بمبئی بندرگاہ پر گاندھی جی کے ساتھ ساتھ بھارت کے بڑے بڑے مجاہدین آزادی آپ کا استقبال کرنے کے لیے آئے۔ مولانا محمود الحسن کی رہائی سے پہلے ہی مولانا کے شاگردوں نے علماء کی ایک تنظیم جمعیت العلماء کے نام سے بنائی تھی اور سب مولانا کا انتظار کررہے تھے، مولانا نے اب جمعیۃ العلماء کے پلیٹ فارم سے آزادی میں حصہ لینا شروع کیا۔ پورے بھارت کا دورہ کیا۔ اور اپنی عمر کے آخری حصے میں بھی انگریزوں کے خلاف اپنی جنگ جاری رکھی۔ مگر 30نومبر 1920ء کو دلی میں بھارت کا یہ عظیم سپوت ایک مختصر علالت کے بعد اس دنیا سے ہمیشہ ہمیش کے لیے رخصت ہوگیا۔
مولانا محمود الحسن دیوبندی نہ صرف یہ کہ ایک عظیم مجاہد آزادی تھے، بلکہ ایک عظیم الشان عالم دین اوراسلامی اسکالر  بھی تھے۔
آپ کے مشہور شاگردوں کی فہرست میں مولانا اشرف علی تھانوی، علامہ انور شاہ کشمیری، علامہ شبیر احمد عثمانی، مفتی کفایت اللہ دہلوی، مولانا اصغر حسین دیوبندی، مولانا عبداللہ سندھی، مولانا اعزاز علی دیوبندی، مولانا حبیب الرحمن عثمانی اور مولانا حسین احمد مدنی جیسے بڑے علماء کا نام شامل ہے۔ آپ کی وفات بعد آپ کے شاگردوں نے بھارت کی آزادی میں جو زبردست کردار ادا کیا وہ بھارت کی تاریخ کا ایک خوبصورت باب ہے۔
مولانا محمود الحسن دیوبندی نے اپنی تمامتر مشغولیات کے باوجود کئی کتابیں بھی لکھیں، اور قرآن پاک کا ترجمہکیا۔ ایضاح الدولہ اور الادلۃ الکاملۃ کے علاوہ قرآن پاک کا آپ کا ترجمہ پوری دنیا میں مشہور ہے۔

متعلقہ خبریں

Back to top button