جنرل نیوز

گلبرگہ میں یومِ ہندی کے موقع پر ڈاکٹر ماجد داغی، اشوک گروجی اور ناگیندراپپا آورادی و دیگر کا خطاب

عدم برداشت کا رویہ ہندوستانی تہذیب کے مغائر، امیر خسروؒ ہندی کے پہلے شاعر

سماج میں عدم برداشت کے رویہ ہم سے دوسروں کا احترام چھین لیتے ہیں جو ہندوستانی تہذیب کے مغائر ہے۔ ان خیالات کا اظہار ڈاکٹر ماجد داغی صدر لوک ساہتیہ منچ گلبرگہ نے کرناٹک راجیہ ہندی پروڈ شالہ شِکشَک سنگھ بنگلور کے زیرِ اہتمام ہندی بھون کرناٹک ہندی پرچار سبھا سیڑم روڈ گلبرگہ میں جشنِ یومِ ہندی سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

 

انہوں نے یومِ ہندی کے خلاف اٹھائی جارہی آوازوں اور احتجاج کی سختی سے مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ہندی بھارت کی سرکاری زبان ہے جس کا احترام ہر شہری پر واجب ہے۔ یہ نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا کے کئی ممالک میں بولی اور سمجھی جانے والی ایک بڑی زبان ہے جس پر ہر ہندوستانی کو بجا طور پر فخر حاصل ہے۔ ڈاکٹر ماجد داغی نے کہا کہ یومِ ہندی 14/ستمبر کو منایا جاتا ہے۔ یہ دن خاص اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہ سال 1949ء میں دستورساز اسمبلی کی طرف سے سرکاری زبان کے طور پر ہندی کی موافقت کی علامت ہے۔ اس تاریخ کا انتخاب آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہندی زبان میں پہلی نظم حضرت امیر خسروؒ نے لکھی تھی۔ اس خصوص میں انہوں نے حضرت امیر خسروؒ کا نمونہ کلام بھی پیش کیا اور کہا کہ ہندی سے مراد ‘دریائے سندھ کی سرزمین’ ہے۔ ماجد داغی نے کہا کہ ہندی کے لئے یہ دن پہلی بار 1953 میں راشٹریہ بھشا پرچار سمیتی، کی تجویز پر منایا گیا تھاجس کا احترام ہر شہری پر واجب ہے اس کے لئے 14 ستمبر سے 21 ستمبر تک پورا ہفتہ راج بھاشا ہفتہ کے طور پر منایا جاتا ہے۔

 

ڈاکٹر ماجد داغی نے مجاہدِ آزادی شری ودیا دھر گروجی کی خدمات اور وسیع النظری کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہندی کا دامن بہت کشادہ ہے کہ یہ زبان ہندوستانی زبانوں کے ساتھ ساتھ غیرملکی زبانوں کو بھی اپنے آنگن میں جگہ دینے اور ساتھ ساتھ ترقی کے مواقع فراہم کرنے کا حوصلہ رکھتی ہے۔ودیا دھر گروجی نے ہمہ لسانی تنظیم لوک ساہتیہ منچ کا قیام اس لئے عمل میں لایا تھا تاکہ بلا لحاظ ذات پات، رنگ و نسل اور علاقہ فنکاروں کو اپنی اپنی زبانوں میں تخلیقات پیش کرنے کے آزادانہ مواقع فراہم ہوں، جس سے بھائی چارہ، قومی یکجہتی اور اخوت کو فروغ حاصل ہو۔ شری اشوک گروجی سکریٹری کرناٹک ہندی پرچار سبھا نے کہا کہ بلا شبہ بھارت کو انگریزوں سے آزادی کے 75 برس تو گزر گئے مگر ہم آج بھی انگریز کے نہ سہی انگریزی کے غلام ضرور ہیں اور انتہائی افسوس اور دکھ کی بات یہ ہے کہ ہمارے چند بھائی ملک کی سرکاری زبان ہندی کی کھلے عام مخالفت کرتے ہیں جو خالص ہندوستانی زبان ہے،ان لوگوں نے غیر ملکی زبان انگریزی کو تو اپنے سینوں سے لگائے رکھا ہے تاہم ہندی سے بیر رکھتے ہیں، انتہائی تعجب کی بات ہے

 

۔ ڈاکٹر دیانند شاستری اسسٹنٹ پرنسپل این وی کالج گلبرگہ نے کہا کہ حیرت اس بات پر بھی ہے کہ ہندی کو ملک کی سپریم کورٹ اور نہ ہی ہائی کورٹ نے ہنوز اپنایا۔پروفیسر سُنندا مڈی ہونراؤ نے کہا کہ ہندی دنیا کے رابطے کی بڑی زبانوں میں سے ایک اہم زبان ہے جو بولنے، سمجھنے اور لکھنے پڑھنے میں انتہائی آسان زبان بھی ہے جو اس کی ہمہ گیری سے ثابت ہے۔ ہندی وِدوان شری ناگیندراپپا آورادی نے کہا کہ کسی بھی زبان کی ترقی و ترویج کے لئے حکومتوں کی شکایتوں سے پہلے ہر فرد کو انفرادی طور پر خود اپنا دیانتدارانہ محاسبہ و جائزہ لینا چاہیئے کہ اس کے لئے میں کیا کرسکتا ہوں تب سرکاریں خود بخود آگے آئیں گی۔شری چنپپا برادر نے اپنے صدارتی خطاب میں تمام مقررین کی تقاریر پر اپنی رائے ظاہر کرتے ہوئے ہندی زبان و ادب کے مستقبل پر تشویش کے باوجود اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کہ جس زبان کو حکومت کی سرپرستی حاصل ہے اس کا مستقبل ہرگز مایوس نہیں ہوتا۔

 

اجلاس میں ہندی پروفیسرز، وِدوانوں،صحافیوں، اساتذہ اور محبان ہندی کی کثیر تعداد شریک تھی۔ تقریب کا آغاز شریمتی ارچنا جی کی راشٹریہ گیت سے ہوا اور درمیان میں ڈاکٹر راج کمار نے بھی ایک راشٹریہ گیت سنایا۔ مسٹر کمار نے خیر مقدم کیا اور شکریہ پر اجلاس اختتام پذیر ہوا۔ہندی دیوس کے موقع پر ہندی میڈیم ہائی اسکول کے طالبات نے ہندی زبان کے رسم الخط، قواعد اور جملوں کی خوبصورت بندشوں پر قابلِ تحسین رنگا رنگ نمائش کا بھی اہتمام کیا تھا جس کی ناظرین نے خوب ستائش کی اور طالبات میں ہندی کتابوں کے تحفے پیش کئے گئے

متعلقہ خبریں

Back to top button