چیف منسٹر ریونت ریڈی کا دعویٰ : "2034 تک تلنگانہ میں کانگریس ہی راج کرے گی

چیف منسٹر ریونت ریڈی نے دعویٰ کیا ہے کہ آئندہ 10 برسوں تک ریاست میں کانگریس کا اقتدار ناقابلِ شکست رہے گا۔ حیدرآباد پریس کلب میں منعقدہ ’میٹ دی پریس‘ پروگرام کے دوران انہوں نے کہا کہ جون 2034 تک کانگریس ہی حکومت میں رہے گی اور ریاستی ترقی کا پہیہ اسی رفتار سے آگے بڑھے گا۔
ریونت ریڈی نے جوبلی ہلز ضمنی انتخاب کا ذکر کرتے ہوئے طنزیہ انداز میں کہا، “اگر بی جے پی اپنا ڈپازٹ بچا لے تو یہ سمجھو جیسے وہ پورے ملک میں جیت گئی ہو۔” انہوں نے مزید پیش گوئی کی کہ 2028 کے دسمبر میں اسمبلی انتخابات نہیں ہوں گے بلکہ جمِلی انتخابات جون 2029 میں منعقد ہوں گے، جن میں بھی کانگریس کی واپسی یقینی ہے۔
وزیراعلیٰ نے اپنی حکومت کی ترقیاتی پالیسیوں کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ وہ انہی نظریات کو آگے بڑھا رہے ہیں جن کی بنیاد نیدروملی جناردھن ریڈی، چندرا بابو نائیڈو اور وائی ایس راج شیکھر ریڈی نے رکھی تھی۔ انہوں نے کہا کہ آئی ٹی اور فارما انڈسٹری میں حیدرآباد کی موجودہ پہچان انہی ادوار کی مرہونِ منت ہے۔
ریونت کے مطابق شمس آباد ایئرپورٹ اور او آر آر (Outer Ring Road) جیسے منصوبے وائی ایس آر کے دورِ حکومت کی یادگار ہیں، جنہوں نے شہر کو “نالج سٹی” کے طور پر عالمی نقشے پر نمایاں کر دیا۔
انہوں نے فخر سے کہا کہ آج مرکز کے 70 فیصد ادارے حیدرآباد میں قائم ہیں اور یہی شہر دنیا بھر کی ٹیکنالوجی کمپنیوں کا گڑھ بن چکا ہے۔
اسی دوران ریونت ریڈی نے سابق چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ بی آر ایس حکومت ہر محاذ پر ناکام رہی — نہ کسانوں کو سہارا ملا، نہ تعلیم و صحت کے شعبے میں کوئی پیش رفت ہوئیریونت ریڈی نے کہا کہ انہوں نے کے سی آر کے کسی منصوبے کو منسوخ نہیں کیا بلکہ ان میں بہتری لاتے ہوئے نئی اسکیمیں شروع کی ہیں۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کی حکومت نے ایس سی طبقات کی درجہ بندی نافذ کر کے ایک تاریخی کارنامہ انجام دیا اور تلنگانہ پہلی ریاست بنی جس نے ذات پر مبنی مردم شماری مکمل کی۔ساتھ ہی خواتین کے مفت سفر، ریاستی ترانہ اور فلاحی اقدامات کو اپنی حکومت کی نمایاں کامیابیاں قرار دیا۔
مرکزی حکومت پر حملہ کرتے ہوئے چیف منسٹر نے الزام لگایا کہ بی جے پی ریاست میں آنے والی کمپنیوں کو گجرات منتقل کرنے کی سازش کر رہی ہے اور مرکزی وزیر کشن ریڈی اس میں پیش پیش ہیں۔انہوں نے بی جے پی اور بی آر ایس کے رشتے کو “فیوی کال” جیسا قرار دیتے ہوئے کہا کہ دونوں جماعتیں بظاہر مخالف ہیں مگر اندرونِ خانہ ایک دوسرے کے مفاد میں کام کر رہی ہیں۔



