غلطی نہیں کی تو عدالت سے رجوع ہونے کی کیا ضرورت – محمد علی شبیر کا کے سی آر سے سوال

حیدرآباد، 20 اگست: تلنگانہ حکومت کے مشیر اور سینئر کانگریس لیڈر محمد علی شبیـر نے سابق چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ پر سخت حملہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ کالیشورم پراجیکٹ کی ناکامیوں کو چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
گاندھی بھون میں عوامی شکایات پروگرام پراجاوانی کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے شبیـر علی نے کہا کہ کے سی آر نے جسٹس پی سی گھوش کمیشن کی رپورٹ ایوان میں پیش ہونے سے پہلے ہی عدالت کا رخ کیا۔ یہ ثابت کرتا ہے کہ پراجیکٹ میں بڑے پیمانے پر بے ضابطگیاں ہوئی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کمیشن نے 15 ماہ کی تحقیقات کے دوران سیاستدانوں، ماہرین، انجینئروں، افسران اور مرکزی ایجنسیوں سے پوچھ تاچھ کی اور واضح کیا کہ کئی قانونی و انتظامی غلطیاں ہوئیں۔ کابینہ کی منظوری نہیں لی گئی، سینٹرل واٹر کمیشن اور نیشنل ڈیم سیفٹی اتھارٹی کی اجازت نہیں تھی، لیکن کے سی آر نے اپنے احکامات سے ہی 1.10 لاکھ کروڑ روپے عوامی دولت ضائع کی۔
شبیـر علی نے کہا کہ رپورٹ جلد ہی اسمبلی میں پیش ہوگی اور بحث کے بعد کے سی آر کو اس کا سامنا کرنا پڑے گا۔ انہوں نے اعلان کیا کہ کانگریس حکومت اس بڑے گھوٹالے کے ذمہ داروں کو نہیں چھوڑے گی۔
سماجی انصاف کے اقدامات پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تلنگانہ ملک کی پہلی ریاست ہے جہاں 100 سال بعد ذات پر مبنی مردم شماری کی گئی جس سے ظاہر ہوا کہ پسماندہ طبقات (بی سی) کی آبادی 46.25 فیصد ہے۔ یہ قدم راہل گاندھی کے وژن اور چیف منسٹر ریونت ریڈی کی ہمت سے ممکن ہوا۔
انہوں نے کہا کہ بی سی کوٹے کو 42 فیصد تک بڑھانے کا قانون بھی کانگریس حکومت نے پاس کیا، لیکن بی جے پی حکومت نے مسلمانوں کی شمولیت پر اعتراض کرتے ہوئے اسے روک دیا۔
چار فیصد مسلم ریزرویشن پر بی جے پی کی مخالفت کا جواب دیتے ہوئے شبیـر علی نے کہا کہ یہ مذہب کی بنیاد پر نہیں بلکہ سماجی و پیشہ ورانہ پسماندگی کی بنیاد پر دیا گیا ہے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ ڈاکٹر وائی ایس راج شیکھر ریڈی نے 2004 میں یہ ریزرویشن نافذ کیا تھا جس سے لاکھوں غریب و پسماندہ مسلمان مستفید ہوئے۔ حالیہ مردم شماری میں بھی یہ ثابت ہوا کہ 10 فیصد سے زائد مسلمان بی سی زمرے میں آتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کی بی سی فہرست میں شمولیت نئی بات نہیں ہے۔ مختلف ریاستوں میں 1950 کی دہائی سے ہی مسلم طبقات کو پسماندہ مانا گیا ہے اور سپریم کورٹ نے 1992 میں اندرا ساہنی کیس میں بھی اس کی توثیق کی تھی۔ “اگر بی جے پی میں ہمت ہے تو پہلے گجرات اور دیگر بی جے پی ریاستوں سے مسلم کوٹہ ختم کرے، صرف تلنگانہ کو نشانہ کیوں بنایا جا رہا ہے؟”
شبیـر علی نے کہا کہ مادیگا طبقہ 60 برس سے ایس سی زمرہ بندی کے لیے جدوجہد کر رہا تھا اور یہ کانگریس ہی تھی جس نے نیا قانون پاس کرکے انصاف دلایا۔
انہوں نے جسٹس سودرشن ریڈی کو نائب صدر کے عہدے کے لیے کانگریس اتحاد کے امیدوار کے طور پر مکمل حمایت دینے کا اعلان کیا اور بی جے پی پر الزام لگایا کہ وہ صرف اپوزیشن کو دبانے کے لیے نئے قوانین لا رہی ہے۔
اندرامّا ہاؤسنگ اسکیم پر بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ لاکھوں درخواستیں موصول ہوئیں، پہلے مرحلے میں ان کو مکان ملے گا جن کے پاس زمین ہے اور دوسرے مرحلے میں بے زمین افراد کو گھر دیے جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ کانگریس حکومت کے آنے کے بعد عوامی شکایات سننے کا عمل دوبارہ بحال ہوا ہے، جبکہ بی آر ایس دور میں یہ مکمل طور پر ختم ہو گیا تھا۔