ریونت ریڈی کمزور اور نااہل چیف منسٹر۔کانگریس میں پاسنگ مارکس کے حصول میں بھی ناکام

سماجی تلنگانہ کی تعمیر میں طلبہ قائدانہ کردار ادا کریں
تلنگانہ تحریک کی اساس پر جوش و ولولہ کے ساتھ آگے بڑھنے کی ضرورت
پسماندہ طبقات کو 42 فیصد تحفظات کی فراہمی کے بغیر مجالس مقامی کے انتخابات ناقابل قبول
بی سیز کی حق تلفی پر شدت کے ساتھ عوامی تحریک شروع کرنے کا انتباہ
ریونت ریڈی کمزور اور نااہل چیف منسٹر۔کانگریس میں پاسنگ مارکس کے حصول میں بھی ناکام
تعلیمی شعبہ کے مسائل کی یکسوئی کے لئے سنجیدہ مساعی ناگزیر
ودیا بھروسہ کارڈس کی تقسیم کے نام پر طلبہ کے ساتھ کھلا دھوکہ۔فیس باز ادائیگی کے بقایہ جات فی الفور جاری کئے جائیں
سائی ناتھ و دیگر طلبہ تنظیموں کے لیڈرس کی تلنگانہ جاگروتی میں شمولیت۔ کے کویتا کا خطاب
حیدرآباد: صدر تلنگانہ جاگروتی و رکن قانون ساز کونسل کے کویتا نے طلبہ برادری سے اپیل کی کہ وہ سماجی تلنگانہ کے قیام کے لئے اپنی طاقت اور بصیرت کو منظم کریں اور اس مقدس جدوجہد میں پیش پیش رہیں
۔ انہوں نے یاد دلایا کہ علیحدہ ریاست تلنگانہ کی تحریک میں طلبہ نے صفِ اوّل کا کردار ادا کیا تھا اور اب وقت آ گیا ہے کہ اسی جوش و ولولے کے ساتھ وہ سماجی تلنگانہ کے قیام کے لئے کردار ادا کریں۔بی جے وائی ایم کے رہنما سائی ناتھ سمیت مختلف طلبہ تنظیموں سے وابستہ قائدین اور طلبہ نے آج تلنگانہ جاگروتی میں شمولیت اختیار کی۔
اس موقع پر صدر تلنگانہ جاگروتی کے کویتا نے اپنی رہائش گاہ پر ان کا پرجوش خیرمقدم کیا اور انہیں کھنڈوا پہنا کر تنظیم میں شامل کیا۔یہ شمولیت تلنگانہ جاگروتی کی طلبہ ونگ کے لیڈرس ورشت پیڈراجولہ، سندیپ داسوجو، رادھا سری، ویشنوی اور شنکر گوڑ کی فعال قیادت میں انجام پائی ۔اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کویتا نے کہا کہ ریاستی اسمبلی سے منظور شدہ بی سی بلس تاحال مرکزی حکومت کے پاس زیر التوا ہیں۔
ایسے میں مقامی اداروں کے انتخابات منعقد کرانے کا خیال ہی غلط ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر بی سیز کو 42 فیصد ریزرویشن دیئے بغیر انتخابات منعقد کئے گئے تو تلنگانہ جاگروتی خاموش نہیں بیٹھے گی۔ انتخابات اسی صورت میں قابل قبول ہوں گے جب پسماندہ طبقات کو ان کا جائز آئینی حق دیا جائے گا۔
اگر انہیں اُن کے حقوق سے محروم کرنے کی کوشش کی گئی تو ہم شدت کے ساتھ عوامی تحریک کا آغاز کریں گے۔ریاست کی موجودہ سیاسی صورتحال پر تنقید کرتے ہوئے کے کویتا نے کہا کہ وزیراعلیٰ ریونت ریڈی دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے کرناٹک کے وزیراعلیٰ سدارامیا کو ذات پات پر مبنی مردم شماری کا طریقہ سکھایا، لیکن محض ایک گھنٹے بعد جب کانگریس نے سرکاری تصویر جاری کی تو اُس میں راہول گاندھی، ملکارجن کھڑگے، سدارامیا اور ڈی کے شیوکمار موجود تھے
مگر ریونت ریڈی کہیں نظر نہیں آئے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ ریونت ریڈی کے دعوے کس قدر بے بنیاد اور من گھڑت ہیں۔انہوں نے طنزیہ انداز میں کہا کہ راہول گاندھی کے درشن نہ ہونے پر ریونت ریڈی بے چین نظر آتے ہیں حالانکہ انہیں عوامی مسائل پر توجہ دینی چاہئے نہ کہ درشن کے پیچھے دوڑنے میں وقت ضائع کرنا چاہئے۔کویتا نے یاد دلایا کہ ریونت ریڈی خود یہ تسلیم کر چکے ہیں
کہ انہوں نے آر ایس ایس اسکول اور ٹی ڈی پی کالج میں تعلیم حاصل کی اور اب کانگریس میں ’’نوکری‘‘ کر رہے ہیں، لیکن اس نوکری میں بھی وہ پاسنگ مارکس حاصل نہیں کر پا رہےہیں۔ دہلی کے لگاتار دورے کرتے ہوئے وہ "نصف سنچری” مکمل کر چکے ہیں، اس کے باوجود کابینہ کی مکمل تشکیل تک نہیں ہو سکی۔ انہوں نے کہا کہ ایسا نااہل اور کمزور وزیراعلیٰ عوام نے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔
حتیٰ کہ متحدہ ریاست کے آخری وزیراعلیٰ کرن کمار ریڈی بھی اس قدر کمزور نہ تھے۔کے کویتا نے شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ریونت ریڈی دہلی میں تلنگانہ کی خودداری کو رہن رکھ رہے ہیں جو ناقابل قبول ہے۔ تعلیمی شعبہ کی زبوں حالی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کویتا نےکہا کہ ریاست میں طلبہ کو شدید مسائل کا سامنا ہے، اور اس اہم میدان میں سنجیدہ جدوجہد کی ضرورت ہے
۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ ریاستی حکومت کے ذمہ تقریباً 8000 کروڑ روپئے فیس ری ایمبرسمنٹ کے بقایہ جات ہیں، جنہیں فوری طور پر جاری کیا جانا چاہئے۔انہوں نے نشاندہی کی کہ کانگریس نے انتخابی مہم کے دوران ’’ودیا بھروسہ کارڈس‘‘ کی تقسیم کا وعدہ کیا تھا، لیکن اب تک وہ وعدہ وفا نہیں ہوا ہے،
جو طلبہ کے ساتھ کھلا دھوکہ ہے۔انہوں نے جاگروتی کی اسٹوڈنٹ ونگ کو ہدایت دی کہ وہ بجلی کی رفتار سے کام کرے، طلبہ کے مسائل کو اجاگر کیا جائے ۔ تعلیمی اداروں میں سماجی بیداری پیدا کی جائے۔ یہ شمولیت صرف تنظیمی طاقت میں اضافہ نہیں بلکہ سماجی تبدیلی کی سمت ایک مثبت قدم ہو نا چاہئے۔ تلنگانہ جاگروتی آنے والے دنوں میں طلبہ کے تعاون سے ریاست گیر سطح پر عوامی مسائل کو اجاگر کرنے کا عزم رکھتی ہے۔