تلنگانہ

رکن کونسل کویتا نے بی آر ایس لیڈر جگدیش ریڈی پر لگایا ان کے خلاف سازش کرنے کا الزام

پسماندہ طبقات کو 42 فیصد تحفظات کے لئے تلنگانہ جاگروتی کی 72 گھنٹے کی بھوک ہڑتال کا آج سے آغاز

کانگریس کی مبہم پالیسی۔ مسلم او بی سی سے متعلق وضاحت ناگزیر

ریاستی حکومت سے بھوک ہڑتال کی اجازت دینے کی پرزور اپیل۔ جمہوری آواز کو دبایا نہ جائے

بی سی ریزرویشن پر راہول اور پرینکا کی خاموشی معنی خیز

مرکزی بی جے پی حکومت کی مجرمانہ پالیسی، مردم شماری اور سماجی انصاف پر کوئی پیش رفت نہیں

حیدرآباد، 3 اگست 2025: صدر تلنگانہ جاگروتی و رکن قانون ساز کونسل بی آر ایس کلواکنٹلہ کویتا نے اعلان کیا ہے کہ ریاست تلنگانہ میں پسماندہ طبقات کو 42 فیصد تحفظات کی فراہمی کے مطالبہ پر تلنگانہ جاگروتی کی جانب سے 72 گھنٹوں کی بھوک ہڑتال 4 اگست پیر سے ہوگی۔ وہ بنجارہ ہلز میں واقع ان کی رہائش گاہ پر میڈیا سے خطاب کررہی تھیں۔ کویتا نے کہا کہ اس احتجاج کا مقصد پسماندہ طبقات کی جملہ 112 ذاتوں کو نمائندگی کا موقع فراہم کرنا ہے، جنہیں روزانہ 40 کے حساب سے اپنے مسائل بیان کرنے کے لئے موقع فراہم کیا جائے گا، اور اس عمل کے لئے کم از کم تین دن درکار ہوں گے۔ کویتا نے کہا کہ کانگریس ہمیشہ سے مجہول اور غیر واضح پالیسیوں کی علامت رہی ہے، مگر اب وقت آ چکا ہے کہ وہ بی سی تحفظات پر اپنا واضح موقف عوام کے سامنے پیش کرے۔ انہوں نے حکومت سے پرزور مطالبہ کیا کہ وہ نہ صرف 42 فیصد تحفظات کے بارے میں وضاحت کرے بلکہ مسلم او بی سی کی اس میں شمولیت کو بھی یقینی بنائے۔ انہوں نے کہا کہ کانگریس کے اپنے ہی اعداد و شمار کے مطابق ریاست میں بی سی طبقات کی آبادی 46 فیصد اور مسلم او بی سی آبادی 10 فیصد ہے، لہٰذا کل 56 فیصد تحفظات کی فراہمی ہی سماجی انصاف کے تقاضے کو پورا کر سکتی ہے۔

 

انہوں نے واضح کیا کہ یہ احتجاج مکمل طور پر گاندھیائی اصولوں پر مبنی ہوگا، جس میں نہ کھانا کھایا جائے گا اور نہ ہی پانی پیا جائے گا۔ انہوں نےریاستی حکومت سے اپیل کی کہ وہ اس پرامن احتجاج کی باقاعدہ اجازت دے تاکہ پسماندہ طبقات کی آواز جمہوری طریقے سے بلند کی جا سکے۔ کویتا نے الزام عائد کیا کہ بی جے پی اور کانگریس دونوں ہی پسماندہ طبقات کو تحفظات کے معاملے میں صرف سیاسی تماشے کر رہے ہیں، بی جے پی کی جانب سے آرڈیننس پر کوئی واضح مؤقف سامنے نہیں آیا اور ان کی حمایت محض ایک ڈرامہ لگتی ہے، جو ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے کوئی چور خود کو چور کہلانے سے بچنے کی کوشش کر رہا ہو۔

کویتانے بی آر ایس پارٹی کے اندرونی اختلافات پر بھی کھل کر اظہار خیال کیا۔ انہوں نے افسوس کے ساتھ کہا کہ جب ان کے خلاف نازیبا تبصرے کئے گئے تو عوام ان کے ساتھ کھڑی رہی، مگر افسوس پارٹی نے ان کی حمایت نہیں کی۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ ان کے خلاف مہم کے پیچھے پارٹی کے ایک سینئر لیڈر کا ہاتھ ہے، جو مشترکہ نلگنڈہ ضلع سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے طنزیہ انداز میں انہیں "لِلی پٹ لیڈر” قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ یہی شخص 11 حلقوں میں بی آر ایس کی ناکامی کا ذمہ دار ہے، اور پارٹی کو نقصان ایسے ہی افراد نے پہنچایا ہے

 

جنہوں نے تلنگانہ تحریک میں کوئی کردار ادا نہیں کیا اور اقتدار کے بعد پارٹی میں شامل ہوئے۔ کویتا نے کہا کہ وہ ڈرنے والی نہیں، انہوں نے تلنگانہ ریاست کے قیام کے لئے قربانیاں دی ہیں اور ہر قدم پر لڑائی لڑی ہیں، اب بھی کسی کے دباؤ میں آنے والی نہیں۔

 

مرکزی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کویتا نے کہا کہ بی جے پی حکومت کا پسماندہ طبقات کے معاملے میں رویہ قابل مذمت ہے۔ وہ ایک طرف "سب کا ساتھ، سب کا وکاس” جیسے نعرے بلند کرتی ہے، مگر جب تحفظات، سماجی انصاف اور مردم شماری جیسے حقیقی مسائل کی بات آتی ہے تو وہ خاموشی اختیار کر لیتی ہے۔ بی جے پی نے آج تک بی سی طبقات کے حقیقی اعداد و شمار کے لئے مردم شماری نہیں کروائی۔ آخر کب تک پسماندہ طبقات کے ساتھ دوہرا معیار اختیار کیا جاتا رہے گا؟ انہوں نے استفسار کیا کہ اگر راہول گاندھی اور پرینکا گاندھی واقعی بی سی تحفظات کے معاملے میں سنجیدہ ہوتے تو کیا وہ صدر جمہوریہ سے وقت نہیں لے سکتے تھے؟ انہوں نے کہا کہ دونوں نے پارلیمنٹ میں اس معاملے پر ایک لفظ تک نہیں کہا، جو اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ان کے دل میں پسماندہ طبقات کے لئے کوئی حقیقی ہمدردی موجود نہیں۔

 

آخر میں کویتا نے ریاستی حکومت سے پھر ایک بار پرزور اپیل کی کہ وہ تلنگانہ جاگروتی کی 72 گھنٹے کی اس پرامن بھوک ہڑتال کو باقاعدہ اجازت دے تاکہ پسماندہ طبقات کے جمہوری حقوق اور سماجی انصاف کے حصول کے لئے جدوجہد کو کامیابی کے ساتھ آگے بڑھایا جا سکے۔

متعلقہ خبریں

Back to top button