مسلمانوں کی حقیقی طاقت صرف سیاسی نمائندگی سے ممکن ہے : محمد علی شبیر

حیدرآباد، 26 دسمبر : کانگریس کے سینر قائد اور تلنگانہ حکومت کے مشیر محمد علی شبیر نے کہا ہے کہ تلنگانہ میں مسلمانوں کی حقیقی بااختیاری صرف سیاسی نمائندگی کے ذریعہ ممکن ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ مسلمانوں کو فیصلہ سازی کے اداروں میں مناسب نمائندگی کی ضرورت ہے تاکہ ان کی فلاح و بہبود اور ترقی یقینی بنائی جا سکے۔
یہ بات شبیر علی نے آل مائنارٹی ایمپلائز ویلفئر ایسوسی ایشن کے نئے سال کے کیلنڈر کے اجرا کے موقع پر کہی۔ انہوں نے بتایا کہ تلنگانہ کی کل آبادی میں مسلمان تقریباً 15 فیصد ہیں اور انہیں تمام شعبوں، خصوصاً سیاست میں نمائندگی کی ضرورت ہے۔ شبیر علی نے یاد دلایا کہ سابق کانگریس حکومت کے دور میں 2004 میں سماجی اور تعلیمی طور پر پسماندہ مسلمانوں کے لئے 4 فیصد ریزرویشن کا تعارف کروایا گیا تھا، جس سے آج تک لاکھوں مسلم خاندانوں اور طلبہ کو فائدہ پہنچا ہے۔
اس پالیسی کے تحت ہزاروں مسلم طلبہ نے ایم بی بی ایس اور دیگر پروفیشنل کورسز میں داخلہ لیا اور کمیونٹی کو سرکاری بھرتیوں میں بھی 4 فیصد حصہ ملا۔
شبیر علی نے کہا کہ کانگریس حکومت نے تعلیم اور ملازمتوں کے علاوہ مسلمانوں کی سیاسی بااختیاری کے اقدامات بھی کیے، جس کے تحت مسلمانوں کو بی سی-ای کیٹگری میں شامل کیا گیا تاکہ وہ پسماندہ طبقے کے لیے مختص نشستوں سے الیکشن لڑ سکیں۔ اس سے دیہی اور شہری مقامی اداروں میں سینکڑوں مسلم نمائندگان منتخب ہوئے، جن میں سربراہان، زونل پینچائت ممبران، کارپوریشنز، کونسلزس وارڈ ممبران، میئرس ، ڈپٹی میئرس اور ضلع پاریشاد چیئرمین شامل ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ مسلمانوں کی نمائندگی کو کوآپریٹو سوسائٹیز، زرعی مارکیٹ کمیٹیز اور دیگر سرکاری اداروں میں بھی یقینی بنایا گیا تاکہ کمیونٹی نہ صرف فلاحی اسکیموں سے فائدہ اٹھائے بلکہ پالیسی سازی اور مقامی انتظامیہ میں بھی کردار ادا کرے۔ شبیر علی نے سابق وزیر کے طور پر اپنے تجربے کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ملک کا پہلا مائنارٹی ویلفئر ڈپارٹمنٹ اسی دور میں قائم ہوا جس کے بعد مائنارٹی فلاح کے لیے علیحدہ بجٹ بھی منظور کیا گیا۔
شبیر علی نے مسلمانوں کو خبردار کیا کہ وہ بی جے پی کے سیاسی جال میں نہ پھنسیں، کیونکہ متنازعہ مسائل اکثر حکومت کی ناکامیوں سے توجہ ہٹانے کے لیے پیدا کیے جاتے ہیں۔ انہوں نے ‘وندے ماترم’ کے حالیہ مباحثے کا حوالہ دیتے ہوئے کمیونٹی سے کہا کہ ایسے مسائل پر جلد بازی میں ردعمل نہ دیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ ‘وندے ماترم’ کو 24 جنوری 1950 کو آئینی اسمبلی نے قومی ترانہ کے ساتھ قومی گیت کے طور پر اپنایا اور دونوں کو مساوی احترام دیا گیا۔
شبیر علی نے کہا کہ تلنگانہ میں کانگریس حکومت، جس کی قیادت چیف منسٹر اے ریونتھ ریڈی کر رہے ہیں، فرقہ وارانہ طاقتوں کے خلاف سرگرم ہے اور ایک حقیقی سیکولر انتظامیہ چلا رہی ہے جہاں تمام کمیونٹیز اور ذاتیں آزادی، آواز اور نمائندگی کے ساتھ موجود ہیں۔



