محمد علی شبیر کا مرکز سے امید پورٹل کی ڈیڈ لائن میں توسیع کا مطالبہ

تلنگانہ حکومت کے مشیر برائے ایس سی، ایس ٹی، او بی سی و اقلیتی امور محمد علی شبیر نے مرکز سے مطالبہ کیا ہے کہ تلنگانہ کی وقف جائیدادوں کی تفصیلات Umeed پورٹل پر اپلوڈ کرنے کی آخری تاریخ میں توسیع کی جائے۔ موجودہ ڈیڈ لائن 5 دسمبر کو ختم ہو رہی ہے۔ انہوں نے کم از کم چھ ماہ جبکہ بہتر طور پر ایک سال کی مہلت دینے کا مطالبہ کیا، انھوں نے کہا کہ ہزاروں ادارے تکنیکی رکاوٹوں اور زمینی سطح پر معلومات کی کمی کے باعث شدید دباؤ کا شکار ہیں۔
کاماریڈی میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شبیر علی نے بتایا کہ کئی مساجد کے منتظمین اور متولیوں کو پورٹل کی شرائط سے متعلق بروقت اطلاع نہیں دی گئی، جس کی وجہ سے آخری دنوں میں الجھن اور اضطراب بڑھ گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ متعدد دیہات اور قصبوں تک متعلقہ پیغامات پہنچ ہی نہیں سکے جس کے باعث مساجد، مدارس اور دیگر وقف ادارے تذبذب کا شکار ہیں۔
شبیر علی کے مطابق وقف بورڈ، ریونیو ڈیپارٹمنٹ اور میونسپل انتظامیہ کے ساتھ تال میل قائم کرتے ہوئے مقامی کمیٹیوں کی مدد کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کاماریڈی میں انہوں نے تین کمپیوٹرس فراہم کئے اور حیدرآباد و نظام آباد کے وقف انسپکٹرس کی ٹیمیں بھی بلوا کر ڈیٹا انٹری میں تعاون حاصل کیا۔ پورٹل بار بار ڈاؤن ہو رہا تھا۔ جیسے ہی سرور بحال ہوتا، ٹیمیں کام شروع کر دیتی تھیں مگر تمام اداروں کی انٹری مکمل کرنے کے لئے وقت ناکافی ہے
انہوں نے مزید کہا کہ متعدد مساجد اور مدارس کو خوف ہے کہ اگر ڈیڈ لائن میں توسیع نہ ہوئی تو ان کی جائیدادیں پورٹل کی فہرست میں شامل نہیں ہو پائیں گی۔ انھوں نے کہا کہ متولیوں کو یہ فکر لاحق ہے کہ اگر بروقت انٹری نہ ہو سکی تو کیا ان کی مسجد رجسٹرڈ ہی رہے گی؟ اس خدشے کے خاتمے کے لیے کم از کم چھ ماہ — ترجیحاً ایک سال — کی مہلت ناگزیر ہے،
شبیر علی نے بتایا کہ وہ اس مسئلے کو چیف منسٹر اے ریونت ریڈی اور تلنگانہ کے ارکان پارلیمنٹ کے ذریعے بارہا مرکز تک پہنچا چکے ہیں۔ کئی محکمے ابتدا میں مختلف طریقۂ کار بتا رہے تھے جس سے افسران خود بھی کنفیوژن میں تھے۔ متعدد دورِ ہائے مشاورت کے بعد چیف منسٹر کا خط تیار ہوا جس کے ذریعہ وزیراعظم نریندر مودی سے ایک سال کی توسیع کا باضابطہ مطالبہ کیا گیا۔ اس کی نقول وزارت اقلیتی امور اور ارکانِ پارلیمنٹ کو بھی بھیجی گئیں۔
انہوں نے بتایا کہ پورٹل بند ہونے میں صرف دو دن باقی رہ جانے کے باعث کئی وقف ادارے کم از کم بنیادی انٹریز محفوظ کر رہے ہیں تاکہ ان کی جائیداد ابتدائی فہرست میں شامل ہو جائے اور بقیہ دستاویزات بعد میں اپلوڈ کی جا سکیں۔ ان کے اپنے حلقے کی کچھ مساجد بھی مختصر مدت، دستاویزات کی جانچ اور تکنیکی رکاوٹوں کے باعث دیگر اداروں کی طرح مشکل میں ہیں۔
شبیر علی کے مطابق تاریخی پس منظر بھی موجودہ تاخیر کی وجہ ہے، کیونکہ کئی وقف جائیدادیں دہائیوں قبل بغیر دستاویزی کارروائی کے وجود میں آئیں، اور سابقہ کمیٹیوں نے عطیہ دہندگان، خریداروں یا سرکاری محکموں کے کاغذات محفوظ نہیں رکھے۔ برسوں کے یہ خلا دو دن میں پُر نہیں ہو سکتے، اسی لیے مہلت ضروری ہے،
انہوں نے مزید کہا کہ بھارت کے آئینی و قانونی ڈھانچے میں عبادت گاہوں کے قیام کی آزادی اور سہولت دی گئی ہے، جس کے تحت اداروں پر یہ اضافی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ پرانے ریکارڈ کی درستی اور قومی ڈیٹا بیس میں درست اندراج کو یقینی بنائیں۔
شبیر علی نے واضح کیا کہ تلنگانہ حکومت وقف اراضی کے شفاف اور درست ریکارڈ کی مکمل حمایت کرتی ہے، تاہم یہ عمل اضافی وقت کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے زور دیا کہ مرکز فوری طور پر ڈیڈ لائن میں توسیع کا اعلان کرے تاکہ متولیوں کی بے چینی ختم ہو، غلطیوں سے بچاؤ ممکن ہو اور ریاست کی ہر وقف جائیداد Umeed پورٹل پر درست طریقے سے محفوظ ہو سکے۔



