تلنگانہ

وقف ترمیمی قانون کے خلاف مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں طلبہ کا احتجاج

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی جانب سے دی گئی ملک گیر اپیل کے تناظر میں، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی (مانو) کے سیکڑوں طلبہ نے پیر کے روز جامعہ کے احاطے میں جمع ہوکر حالیہ وقف (ترمیمی) ایکٹ کے خلاف پُرزور احتجاج درج کرایا۔ طلبہ نے اس قانون کو "مسلم مخالف” اور "جانبدارانہ” قرار دیا۔

 

یہ احتجاج AUSF، فرٹیرنٹی موومنٹ، اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن (SIO) اور گرلز اسلامک آرگنائزیشن (GIO) جیسی طلبہ تنظیموں کے اشتراک سے منعقد ہوا، جو کہ مسلمانوں کے مذہبی و فلاحی اداروں پر ریاستی مداخلت اور ان کی خودمختاری کے خاتمے کے خلاف ایک متحدہ مؤقف کی حیثیت رکھتا ہے۔

 

شیخ مدثر، پی ایچ ڈی اسکالر اور ایس آئی او، مانو کے صدر نے کہا:

"ہم وقف ترمیمی قانون کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں۔ یہ ایک ریاستی پشت پناہی یافتہ یلغار ہے، جو مسلمانوں کے مذہبی، فلاحی اور ثقافتی اداروں کو نشانہ بناتی ہے۔ وقف کی خودمختاری کو منہدم کرکے حکومت مسلمانوں کے ورثے کو مٹانے پر تلی ہوئی ہے، جب کہ دیگر برادریوں کے اسی نوعیت کے اداروں کو چھوا تک نہیں گیا۔”

 

فرٹیرنٹی موومنٹ کے نائب صدر عمر فاروق قادری نے اس اقدام کو بھارتی آئین کے آرٹیکل 26 کی صریح خلاف ورزی قرار دیا اور اسے حکومت کی "منافقت پر مبنی مسلم فلاحی بیانیے” کا پردہ فاش قرار دیا۔

 

آمنہ انجم، ایم اے طالبہ اور جی آئی او کی ممبر نے کہا:

"وقف اللہ کی ملکیت ہے۔ حکومت کا یہ قدم ملک میں مذہبی آزادی پر براہ راست حملہ ہے۔ جس مشاورتی عمل کا دعویٰ کیا گیا، اس میں لاکھوں اعتراضات کو یکسر نظر انداز کیا گیا۔ یہ اصلاح نہیں، بلکہ بے دخلی ہے۔ یہ نہ صرف وقف پر حملہ ہے بلکہ مسلمانوں کے وجود پر اعلانِ جنگ ہے۔”

 

پی ایچ ڈی اسکالر اور AUSF کے رکن صالح انصاری نے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا:

"یہ قانون بدعنوانی یا تجاوزات کے خلاف کوئی عملی اقدام نہیں کرتا، بلکہ سرکاری مداخلت کو مزید تقویت دیتا ہے اور وقف املاک پر قبضے کی راہ ہموار کرتا ہے۔ تاریخ ان افراد کو یاد رکھے گی جنہوں نے اس ناانصافی کو تقویت دی۔ مسلمان قوم ہر آئینی، قانونی اور جمہوری راستے سے اس کے خلاف جدوجہد جاری رکھے گی۔”

 

مانو میں منعقد ہونے والا یہ احتجاج ملک گیر سطح پر مختلف جامعات اور کمیونٹیز میں ابھرنے والی اس بیداری کا مظہر ہے، جو وقف (ترمیمی) قانون کے اثرات، مذہبی آزادی، اقلیتی حقوق اور آئینی اقدار کے تحفظ کے حوالے سے عوامی تشویش کی شدت کو ظاہر کرتی ہے۔

متعلقہ خبریں

Back to top button