ملک میں مساجد کو نشانہ بنانے پر تشویش کا اظہار چیف جسٹس آف انڈیا کاروائی کریں۔ یونائٹیڈ مسلم فورم کا بیان

File photo
حیدرآباد 27 نومبر (پریس نوٹ) یونائٹیڈ مسلم فورم نے اترپردیش کے سنبھل میں شہر کی جامع مسجد کے سروے کے ذریعہ 5 مسلم نوجوانوں کے قتل واقعہ کی سخت مذمت کی ہے
اور ملک کی تاریخی مساجد کو نشانہ بنائے جانے کے واقعات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ فورم کے ذمہ داران مولانا مفتی سید صادق محی الدین فہیم (صدر)، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی، مولانا سید شاہ علی اکبر نظام الدین حسینی صابری، مولانا سید شاہ حسن ابراہیم حسینی قادری سجاد پاشاہ، مولانا شاہ محمد جمال الرحمن مفتاحی، مولانا محمد حسام الدین ثانی جعفر پاشاہ، مولانا میر قطب الدین علی چشتی، جناب ضیا الدین نیر، جناب سید منیر الدین احمد مختار (جنرل سکریٹری)، مولانا سید شاہ ظہیر الدین علی صوفی قادری، مولانا سید شاہ فضل اللہ قادری الموسوی، مولانا محمد شفیق عالم خان جامعی، مولانا سید مسعود حسین مجتہدی، مولانا مفتی محمد عظیم الدین انصاری، مولانا سید احمد الحسینی سعید قادری، مولانا سید تقی رضا عابدی،
مولانا ابوطالب اخباری، مولانا میر فراست علی شطاری، جناب ایم اے ماجد، مولانا خواجہ شجاع الدین افتخاری حقانی پاشاہ، مولانا ظفر احمد جمیل حسامی، مولانا سید وصی اللہ قادری نظام پاشاہ، مولانا مکرم پاشاہ قادری تخت نشین، مولانا مفتی معراج الدین علی ابرار، مولانا عبدالغفار خان سلامی، جناب بادشاہ محی الدین، جناب محمد خلیل الرحمٰن،
ڈاکٹر نظام الدین، جناب شفیع الدین ایڈوکیٹ، مولانا سید قطب الدین حسینی صابری، مولانا زین العابدین انصاری و دیگر ذمہ داران نے اپنے مشترکہ بیان میں کہا کہ ملک میں عبادت گاہوں کے جوں کے توں رکھنے سے متعلق قانون کے باوجود فرقہ پرست عناصر ایک بعد دیگر تاریخی اور قدیم تہذیبی ورثہ کی حامل مساجد کو نشانہ بنارہے ہیں۔ ایودھیا میں بابری مسجد کو اس قانون سے استثنیٰ حاصل تھا، اس مقدمہ کے فیصلہ میں سپریم کورٹ نے یہ واضح کیا کہ یہاں کوئی مندر نہیں تھا، تاہم عقیدہ (آستھا) کی بنیاد پر یہ اراضی مندر کے لئے دی جاتی ہے، اس کے بدلے مسجد کے لئے ایک اراضی دوسرے مقام پر الاٹ کرنے کی حکومت کو ہدایت دی ۔
اسلام میں مسجد وہی بنائی جاتی ہے جو اراضی کسی تنازعہ سے پاک ہو۔ کسی مندر کو توڑ کر مسجد بنانا غلط ہے لیکن ہندوتوا کی طاقتیں سیاسی آقاؤں کی سرپرستی میں یہ غلط تاثر پیدا کر رہے ہیں کہ فلاں مندر تھا اس کو ڈھاکر مسجد بنائی گئی۔ کسی مسجد میں پانی کے کھلے حوض کے فوارے کو کسی دھرم کی شناخت قرار دے کر تنازعہ پیدا کرتے آرہے ہیں۔ تحت کی عدالتیں ہندو توا عناصر اور ان کے سیاسی آقاؤں کے دعوؤں کی تکمیل میں برق رفتاری سے ایجنڈا کی تکمیل کررہی ہیں۔
سنبھل کی جامع مسجد میں عدالتی طریقہ کار کو بالائے طاق رکھ کر سروے کروایا گیا اور سروے ٹیم کے ساتھ شرپسند عناصر جو اشتعال انگیز نعرے لگارہے تھے اور اس کے بعد منصوبہ بند طریقہ پر مسلمانوں کے خلاف پولیس نے طاقت کا استعمال کیا اور 5 نوجوانوں کا قتل کردیا گیا۔ پولیس نے اس علاقہ کے تمام افراد تقریبا ڈھائی ہزار مسلمانوں کے خلاف ایف آئی آر درج کئے گئے۔
یونائٹیڈ مسلم فورم نے چیف جسٹس آف انڈیا سے اپیل کی کہ وہ اس واقعہ کا نوٹ لیتے ہوئے از خود کاروائی کریں اور ایک برسر خدمت جج کے ذریعہ اس کی تحقیقات کروائیں۔ فورم کے ذمہ داروں نے سنبھل واقعہ کے شہداء کے ورثاء کو حکومت کی جانب سے ایکس گریشیا فراہم کرنے اور خاطی پولیس عہدیداروں کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرنے کا مطالبہ کیا۔ فورم نے سنبھل واقعہ کے شہداء کے لئے دعائے مغفرت کی اور ان کے پسماندگان کو پرسہ دیا۔
فورم نے چھتیس گڑھ وقف بورڈ کی جانب سے ریاست کے تمام متولیوں کو جمعہ کے خطبہ کی جانچ کرانے کے احکام کی مذمت کی اور کہا کہ چھتیس گڑھ وقف بورڈ کے پاس ایسا کوئی قانونی اختیار نہیں ہے۔ فرقہ پرست عناصر کے آلہ کار مساجد پر کنٹرول کرنے کا ناپاک ارادہ رکھتے ہیں۔ انہیں اس طرح کی حرکتوں سے باز آجانا چاہیے۔
یونائٹیڈ مسلم فورم کے ذمہ داران نے ملک کے مسلمانوں کے اپیل کی کہ وہ کلمہ کی بنیاد پر سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائیں۔ فرقہ پرستوں کی ناپاک سازشوں کا شکار نہ ہوں۔