بھوبھارتی پورٹل میں وقف جائیدادوں کو ریکارڈ آف رائٹس میں شامل کیا جائے

بھوبھارتی پورٹل میں وقف جائیدادوں کو ریکارڈ آف رائٹس میں شامل کیا جائے
ریاست کے بعض علاقوں سے وقف اراضیات کی پٹہ جات میں منتقلی کی خبریں۔ حکومت فوری اقدامات کرے۔ مولانا ابوالفتح سید بندگی بادشاہ قادری کا بیان
حیدرآباد 30 اپریل (پریس نوٹ) مولانا ابوالفتح سید بندگی بادشاہ قادری رکن تلنگانہ اسٹیٹ وقف بورڈ، سجادہ نشین بارگاہ حضرت سید بندگی بادشاہ قادریؒ بالکنڈہ نظام آباد، جاگیر کمیوٹیشن ہولڈر نے کہا کہ تلنگانہ میں ہزاروں قیمتی وقف املاک ہیں جو بہت زیادہ مذہبی، تاریخی اور سماجی اہمیت کی حامل ہیں۔ تاہم، ڈیجیٹل ریکارڈ کی مناسب دیکھ بھال اور اراضیات کے ریکارڈ کی سرکاری نظام کے ساتھ ہم آہنگی نہ ہونے کی وجہ سے ان میں سے کئی جائیدادوں پر یا تو قبضے ہوگئے ہیں یا ان پر غیر مجاز میوٹیشن کیا گیا یا اراضیات کی منتقلی کردی گئی یا اس کو لین دین کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
مولانا ابوالفتح سید بندگی بادشاہ قادری ریاض پاشاہ نے اس ضمن میں چیف منسٹر ریونت ریڈی اور نئے چیف سکریٹری کے راما کرشنا راؤ کو توجہ دلائی کہ بھوبھارتی ایکٹ کے ذریعہ وقف جائیدادوں کی مزید تباہی کو روکا جائے۔ متعلقہ محکمہ جات کو دوبارہ ضروری ہدایات جاری کی جائیں۔ انہوں نے کہا کہ ریاست تلنگانہ کی تمام وقف جائیدادوں کو بھوبھارتی پورٹل میں ریکارڈ آف رائٹس (RoR) کے تحت شامل کیا جائے جو کہ قانون کے تحت لازمی ہے۔ انہوں نے نمائندگی کی کہ تمام وقف جائیدادوں کو سرکاری ریکارڈ میں "فروخت کے لئے ممنوعہ اراضی” کے طور پر نشان زد کریں تاکہ غیر مجاز لین دین، اراضیات پر قبضوں اور ان مذہبی اداروں کی اراضیات کی منتقلی کو روکا جاسکے۔ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ محکمہ ریونیو، اراضیات کے میوٹیشن کے دوران وقف ایکٹ 1995 کے سیکشن (3)5 پر سختی سے عمل کرے
۔ تلنگانہ اسٹیٹ وقف بورڈ کو ہدایت دی جائے کہ وہ ضلع کلکٹرس اور چیف کمشنر آف لینڈ ایڈمنسٹریشن (CCLA) کے ساتھ تال میل کرتے ہوئے وقف اراضیات کی فہرستوں کی تصدیق اور اس کے ادخال کے کاموں میں تیزی لائیں۔ بھو بھارتی پورٹل میں وقف اراضیات کے لئے ایک خصوصی ڈیجیٹل شناخت کنندہ نظام بنایا جائے تاکہ وقف جائیدادوں کی آسان ٹریکنگ، تصدیق اور شفافیت کے اقدامات ہوسکیں۔
ریونیو اور وقف کے اس اشتراک سے اوقافی اداروں کے مفادات کا تحفظ ہوگا، غیر قانونی قبضوں کو روکنے اور ان جائیدادوں سے استفادہ کرنے والے غریب اور پسماندہ خاندانوں کے حقوق کو برقرار رکھنے میں مدد ملے گی۔ مولانا بندگی بادشاہ قادری نے کہا کہ ریاست کے کئی مقامات سے شکایات موصول ہورہی ہیں کہ بھوبھارتی پورٹل پر ریونیو عہدیداروں کی جانب سے وقف جائیدادوں کو پٹہ داروں کے نام پر منتقل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس طرح کا عمل وقف ترمیمی قانون 2025 سے زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتاہے۔
وہ عوامی اور دستوری اہمیت کے اس معاملہ میں حکومت کے مثبت ردعمل اور بروقت مداخلت کی امید کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلہ میں وہ توجہ دلانا چاہتے ہیں کہ وقف ایکٹ 1995 کے سیکشن 5 کے تحت لازمی قرار دیا گیا ہے کہ اوقافی جائیدادوں کی فہرست کی اشاعت کی جائے۔ دفعہ (3)4 کے تحت سروے رپورٹ موصول ہونے پر ریاستی حکومت اسے وقف بورڈ کو روانہ کرے گی۔ وقف بورڈ، سنی یا شیعہ وقف کی فہرست کا جائزہ لیتے ہوئے حکومت کو اندرون 6 ماہ سرکاری گزٹ میں اشاعت کے لیے روانہ کرے گا۔
ریونیو حکام اراضیات کے ریکارڈ کو اپ ڈیٹ کرتے ہوئے وقف کی اس فہرست کو بھوبھارتی میں شامل کریں گے۔ اراضیات کے ریکارڈس میں تبدیلیوں کا فیصلہ کرنے سے پہلے وقف جائیدادوں کے تحفظ کو مدنظر رکھیں۔ مولانا بندگی بادشاہ قادری نے کہا کہ بھوبھارتی کے تحت وقف کے ریکارڈ کی صحیح دیکھ بھال کی جائے اور غلط معلومات کے اندراج کو روکا جائے۔ مولانا سید بندگی بادشاہ قادری ریاض پاشاہ نے کہا کہ سابقہ نظام حکومت میں ہندو اوقاف اور مسلم وقف املاک کی دیکھ بھال سرکاری محکمہ کرتا تھا، چونکہ یہ باقاعدہ سرکاری محکمہ تھا، اس لیے ہندو انڈومنٹ کی جائیدادیں اور مسلم وقف املاک دونوں کو سرکاری جائیدادوں کے طور پر ریکارڈ کیا جاتا تھا۔
اگرچہ جائیدادوں کی ملکیت سرکاری کے طور پر درج کی گئی تھی، لیکن ان جائیدادوں کا انتظام سرکاری محکمہ کے ذریعہ یا تو وقف املاک یا انڈومنٹ کے طور پر کیا جاتا تھا۔ وقف قدیم زمانے سے ہندوستان میں ایک قائم شدہ نظام ہے اور جب بھی کوئی وقف کسی فرد یا زمیندار یا جاگیردار کے ذریعہ کیا جاتا تھا تو اسے نظام کے دور حکومت میں سرکاری محکمہ کے ذریعہ ریکارڈ کیا جاتا تھا اور منتخب بھی جاری کیا جاتا تھا۔ وقف ایکٹ 1954 کے نفاذ کے بعد، وقف املاک کا کنٹرول سرکاری محکمہ سے وقف بورڈ کو منتقل کردیا گیا۔ وقف ایکٹ 1956 اور اس کے بعد وقف ایکٹ 1995 میں وقف املاک کے سروے اور حکومت کی طرف سے گزٹ میں ان کی اشاعت کا بندوبست کیا گیا ہے۔
اسی مناسبت سے آندھراپردیش کی تمام متروکہ جائیدادوں کا پہلا سروے 1960 سے 1967تک کیا گیا اور 1982 میں اسے سروے کمشنر کے ذریعہ ایک آئی اے ایس عہدیدار کو سروے کمشنر کے طور پر حکومت کی طرف سے مقرر کرکے مکمل کیا گیا تھا۔ اس کے بعد کئی سروے کمشنرس کو وقف جائیدادوں کے سروے کے لیے مقرر کیا گیا تھا۔ وقف جائیدادوں کا سروے ریونیو اسٹاف اور مقامی ریونیو عہدیداروں کی مکمل شمولیت سے کیا گیا تھا۔ متروکہ وقف جائیدادیں جنہیں ریاستی حکومت کے ذریعہ مقرر کردہ وقف کمشنر کے ذریعہ وقف قرار دیا گیا تھا اور اس کے علاوہ مناسب انکوائری کے بعد اگر کسی قبرستان یا درگاہ کو ریونیو ریکارڈ میں "پروموبوک” "سرکاری” یا قبرستان "سرکاری” کے طور پر درج کیا گیا ہے تو اسے سرکاری نہیں مانا جائے گا۔
ایسی تمام غیرقابل کاشت اراضی کام ریکارڈ رجسٹر میں پرمبوک کے طور پر ریکارڈ کیا گیا۔ قبرستان یا درگاہوں کو سنٹرل وقف ایکٹ کی مختلف دفعات کے تحت فطری طور پر وقف سمجھا جاتا ہے اور ہمیشہ وقف برقرار رہتا ہے۔ انعام لینڈ کی برخاستگی کے قانون 1955 کی دفعہ (4) کے تحت سپریم کورٹ آف انڈیا کے ذریعہ سنائے گئے فیصلے میں AIR1998 SC صفحہ نمبر 972 میں حکم دیا گیا ہے کہ وقف اراضیات کے سلسلہ میں ریونیو ریکارڈس میں ضروری اندراجات شامل کئے جائیں
اور صرف متعلقہ ادارے کے نام پر مالکانہ حقوق ORC جاری کئے جائیں۔ وقف ایکٹ 1995 کے مطابق وقف کی سروے رپورٹس حکومت کے ذریعہ ریاستی گزٹ میں شائع کی جاتی ہیں اور اس طرح گزٹ کی اشاعت کے بعد کوئی متاثرہ شخص اسے وقف ٹریبونل میں چیالنج کرسکتا ہے اور اس کے بعد وقف ٹریبونل کا فیصلہ حتمی ہوگا۔ اگر اس گزٹ پر کوئی چیالنج نہیں کیا جاتا ہے تو اس کی اشاعت کے ایک سال کے اندر گزٹ حتمی ہوجاتا ہے اور متعلقہ جائیداد کے وقف جائیداد ہونے پر تنازعہ نہیں کیا جاسکتا ہے۔