مضامین

ابتلاء وآزمائش کا الٰہی نظام

مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
 انسان کی حالت ہمیشہ یکساں نہیں رہتی ، وہ خوشی وغمی ، راحت وسکون ، اطمینان وپریشانی  کے حال سے گذرتا ہے ،خوشی ، اطمینان ، راحت سکون سے اس کی زندگی پر خوشگوار اثرات پڑتے ہیں، یہ اثرات کبھی کبھی ذہن ودماغ پر اس قدر حاوی ہوجاتے ہیں کہ غم ، بے اطمینانی اور پریشانی کے احوال اس کے ذہن سے محو ہوجاتے ہے، وہ سب کچھ اپنی محنت کا ثمرہ سمجھتا ہے اور اللّٰہ رب العزت کی ذات اقدس جو ساری نعمتوں کو عطا اور سارے احوال کو طاری کرنے والی ہے ، اس کا خیال جاتا رہتا ہے، ایسے میں اسے آزمایا جاتا ہے تاکہ وہ لوٹ کر اللّٰہ رب العزت کی بار گاہ تک آجائے ، اللّٰہ کو اپنی بار گاہ میں بلانے سے کوئی فائدہ نہیں ، لیکن بندہ بار گاہ خدا وندی تک پہونچ کر ہی کامیابی وکامرانی کے منازل طے کر سکتا ہے، اس لیے اللّٰہ رب العزت بندے کو ابتلاء وآزمائش میں مبتلا کرتے ہیں، تاکہ بندہ آزمائش کے دور سے گذر کر اللّٰہ سے اور قریب ہوجائے، اس آزمائش سے انبیاء کرام کو بھی گذارا جاتا ہے ، حالاں کہ انبیاء کے دل ودماغ سے اللّٰہ رب العزت کبھی بھی غائب نہیں ہوتے، ہر وقت اللہ کا وجود ان کے سامنے ہوتا ہے اور وہ مرضیات خدا وندی کے خلاف کچھ بھی نہیں کرتے، لیکن ان کو دوسرے انسانوں کے لیے ماڈل بنایا جاتا ہے، اس لیے انہیں بھی اس دور سے گذرنا پڑتا ہے، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے آزمائش کا تذکرہ قرآن کریم میں موجود ہے، حضرت ایوب علیہ السلام کی تکلیف دہ پریشانی اور امراض کا تذکرہ بھی قرآن کریم میں ملتا ہے، دیگر انبیاء کرام کے احوال بھی جو قرآن کریم کے ذریعہ اللہ رب العزت نے ہم تک پہونچائے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شاید ہی کوئی نبی ہو جسے ابتلاء آزمائش میں ڈالانہ گیا ہو، ظاہر ہے جو اللہ کے ان پاک  بندوں پر گذری اس سے کسی نہ کسی حد تک امتوں کو بھی گذرنا پڑتا ہے۔ خود اللہ رب العزت نے آزمائش کی چند صورتوں کا قرآن کریم میں ذکر کیا ہے، ان میں خوف ، بھوک، مال وجان اور پیدا وار میں کمی شامل ہے ۔ ایک دوسری آیت میں آزمائش کے بعض دوسرے طریقوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ ارشاد فرمایا: ہے کہ تم ضرور بالضرور آزمائے جاؤگے۔ مال وجان کے مسئلے میں اور ہمتیں ضرور بالضرور نیما پڑیں گی، وہ باتیں جن سے تمہیں سخت تکلیف پہونچے گی ، یہ تکلیف دہ باتیں اہل کتاب او ر مشرکین کی طرف سے آئیں گی ۔(سورۃ آل عمران : ۱۸۶)
قرآن کریم کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے موت وحیات کو بھی بندوں کی آزمائش کے لیے پید اکیا کہ عمل کے اعتبار سے کون بہتر ہے ،۔ (الملک : ۲) ایک دوسری آیت میں عمومی ابتلاء کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : روئے زمین پر جو کچھ ہے اسے ہم نے زمین کی زینت بنایا تاکہ ہم ان لوگوں کو آزمائیں کہ ان میں عمل کے اعتبار سے بہتر کون ہے ۔ (الکہف)
اس سے معلوم ہوا کہ ہر ایک کو ابتلاء وآزمائش سے گذرنا ہی ہوگا، قرآن کریم میں لفظ ابتلاء اور اس کے ملحقات کا سینتیس (۳۷) دفعہ استعمال کیا گیاہے ، اس مقصد کے لیے فتنہ اور امتحان کے الفاظ بھی قرآن کریم میں مذکور ہیں۔
 احادیث میں اس کا ذکر بار بار آیا ہے ، مصعب بن سعد نے اپنے والد سے روایت کیا ہے کہ سب سے زیادہ آزمائش انبیاء کی ہوتی ہے، پھر درجہ بدرجہ انسانوں کی ہوتی ہے۔ بخاری شریف باب الفتن حدیث نمبر ۴۰۲۳ میں ہے کہ بندے کی آزمائش اس کے دین کے اعتبار سے ہوتی ہے، دین میں پختگی ہوگی تو آزمائش سخت ہوگی اور دینی اعتبار سے سستی ہوگی تو اسی کے مطابق آزمایا جائے گا، یہ آزمائشیں گناہوں کی تلافی کے بھی کام آتی ہیں ، آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : بندے کی مسلسل آزمائش ہوتی رہتی ہے ، یہاں تک کہ وہ گناہوں سے پاک ہوجاتا ہے ۔
 ان آیات واحادیث کا ماحصل یہی ہے کہ انسانوں کو ہر حال میں آزمائش سے گذرنا ہے، یہ آزمائشیں کبھی خوف طاری کرکے ہوگی ، کبھی جان ومال کے ضیاع کا معاملہ سامنے آئے گا اور کبھی فاقہ کشی کی نوبت آئے گی، مختصر یہ کہ اگر وہ مسلمان ہے اور دین پر سختی سے عامل ہے تو اس کو سخت ابتلاء وآزمائش کا سامنا کرنا پڑے گا، اس ابتلاء وآزمائش کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ اہل کتاب اور مشرکین ایسی گفتگو پر اتر آئیں جن کا سننا مؤمن کے لیے سخت تکلیف دہ ہو۔ قرآن کریم میں مال کے ساتھ اولاد کو بھی فتنہ کہا گیا ہے ، ارشاد باری ہے ۔ انما اموالکم واولادکم فتنۃ ،  مال کی کثرت کے بعد انسان جس بد اخلاقی ، بد دینی اسراف اور فضول خرچی میں پڑتا ہے، یہ ابتلا کی مختلف شکلیں ہیں، اسی طرح اولاد اگر تعلیم وتربیت کی کمی کی وجہ سے دین وشریعت سے دور جا پڑے تو وہ والدین کے لیے آزمائش بن جاتا ہے اور اس کے بڑے مہلک نتائج سامنے آتے ہیں۔
 قرآن کریم میں ابتلاء وآزمائش کے لیے مصیبۃ کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے وہ مکافات عمل کے طور پر آنے والی آزمائش کے لیے ہے، اللہ رب العزت نے اس کی تفصیل بیان کی کہ جو مصیبتیں تم پر آتی ہیں، وہ تمہارے اعمال ہیں اور وہ بھی سارے اعمال کے بدلے نہیں؛ بلکہ بہت ساری بد عملی اور بے عملی کو اللہ معاف کر دیتا ہے ، تھوڑی بہت پکڑ ہوتی ہے تو بندہ کراہ اٹھتا ہے، اگر سب پر گرفت ہونے لگے تو زندگی اجیرن اور جینا دو بھر ہوجائے ۔ اسی مفہوم کو ایک دوسری آیت میں اس طرح ذکر کیا کہ خشکی وتری میں جو کچھ فساد وبگاڑ ہے وہ انسانوں کے اپنے اعمال کی وجہ سے ہے یہ تمہارے ہاتھوں کی کمائیاں ہیں۔تاکہ وہ اپنے بعض اعمال کا مزہ چکھ لیں،شاید انہیں لوٹنا نصیب ہوجائے۔
 ابتلاء میں مکافات عمل اور آزمائش دونوں کا مفہوم پایا جاتا ہے، بندہ جب اپنے اعمال کو درست کر لیتا ہے ، انابت الی اللہ اور رجوع الی اللہ کو اپنی زندگی کا نصب العین بنا لیتا ہے تو پھر اللہ کی نصرت اور مد د متوجہ ہوجاتی ہے اور بندہ اس آزمائش سے نجات پاجاتا ہے، ابنیاء جب اس مرحلے سے گذرتے ہیں تو انہیں مقام امامت پر فائز کیا جاتا ہے وہ خلیل اللہ بن جاتے ہیں، عام بندہ جب آزمائش میں کامیاب ہوجاتا ہے تو وہ مقرب الی اللہ ہوجاتا ہے۔
 ابتلاء وآزمائش سے پار گھاٹ لگنے کا جو نسخہ اللہ رب العزت نے ہمیں دیا ہے وہ صبر، تقویٰ اور استعانت بالصلوٰۃ ہے، نماز کا اہتمام کیا جائے، اللہ کے خوف وخشیت سے دل کو آباد کیا جائے او رمصائب پر صبر اختیار کیا جائے، صبر کے معنی بہت وسیع ہیں، ان میں قوت برداشت ، تحمل ، جفاکشی ، ہمت ودلیری ، تکلیف سہنے کا جذبہ یا طاقت سبھی کچھ شامل ہے۔ جس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ ہر قسم کی مصیبت ، غم اور پریشانی کے وقت میں اللہ کے مقرر کردہ حدود سے تجاوز نہیں کرنا بھی صبر ہے، پھر اگر دفاع کرنا ہو ہوتو بھی ان امور کا خیال ضرور رکھنا چاہیے، جس کا شریعت نے ہمیں پابند کیا ہے۔
جب صبر کی بات آتی ہے تو بہت سارے لوگ اسے بزدلی قرار دیتے ہیں، خوب اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ نا خوش گوار واقعات پر صبر بزدلی نہیں کام کی حکمت عملی ہے، اور یہ حکمت عملی اللہ رب العزت نے ہمیں بتائی ہے اور اللہ کی تدبیر سے بہتر تدبیر کس کی ہو سکتی ہے ۔ ’’واللہ خیر الماکرین‘‘ اللہ اچھی تدبیر کرنے والا ہے۔
ہندوستان کے جو حالات اس وقت ہیں اور مسلمانوں پر جس طرح زمین اپنی وسعت کے باوجود تنگ ہو رہی ہے، روز نت نئے مسائل پیدا ہو رہے ہیں، یہ بھی ابتلاء وآزمائش کی ہی ایک شکل ہے، اور ہم لوگ عام انسانوں کی طرح ہی انسان ہیں، اس لیے عمومی احوال کے اعتبار سے یہ وہ مصیبت ہے جو ہماری بد اعمالیوں کے طفیل ہم پر مسلط کی گئی ہے، ایسے میں ہمارے لیے انتہائی ضروری ہے کہ اسباب کے درجہ میں اپنے اعمال کی اصلاح کریں، ان تمام کاموں سے بچیں جو اللہ کی ناراضگی کا سبب ہوا کرتے ہیں، احکام خدا وندی کی پاسداری اور نبوی طریقہ کی پابندی سے ہم اس ابتلاء وآزمائش سے نکل سکتے ہیں، ہم ساری خرابیوں کی جڑ بھاجپا حکومت ، وزیر اعظم ، وزیر داخلہ اوردوسرے اہل کاروں کو دیتے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ’’ اعمالکم عمالکم‘‘ تمہارے اعمال ہی تم پر حکمراں بن کر مسلط ہو گیے ہیں، یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ احوال حکمرانوں کے بدلنے سے نہیں بدلتے اعمال کے بدلنے سے بدلتے ہیں، اس ملک میں اس سے قبل بھی مسلمانوں کے خلاف طوفان بلا خیز نے اکھاڑ، پچھاڑ مچایا، ان کے جان ومال کا ضیاع ہوا، خوف کی نفسیات نے ان کا جینا دو بھر کر دیا، اس کے باوجود مسلمان اس مصیبت کے دور سے نکلے اور اللہ کی نصرت ومدد ان پر سایہ فگن ہوئی، اور کاروبار حیات میں پھر سے انہوں نے اپنی جگہ بنائی اور سرخرو ہو کر باہر نکلے، ضرورت رجوع الی اللہ کی ہے، اللہ کی مرضیات پر چلنے کی ہے، بندہ ایک قدم اس کی طرف بڑھتا ہے تو اللہ اس سے قریب ہو جاتے ہیں۔ بندہ اللہ کو مجلس میں یاد کرتا ہے تو اللہ ا س سے اچھی مجلس میں اس کا ذکر کرتا ہے، بندہ تنہائی میں اللہ کو یاد کرتا ہے تو اللہ بھی اسے یاد رکھتے ہیں، ابتلاء وآزمائش میں شدت کے با وجود مسلمانوں کا شیوہ نا امیدی کا نہیں رہا ہے، وہ اللہ کی رحمت سے کبھی مایوس نہیں ہوتا اور اللہ وہ تو غفور الرحیم بھی ہے ستار العیوب بھی۔

متعلقہ خبریں

Back to top button