مضامین

محب اردو حمید انور اور بک امپوریم، تعارف و تبصرہ

ڈاکٹر نورالسلام ندوی، پٹنہ

پٹنہ کے سبزی باغ میں واقع بک امپوریم بظاہر کتابوں کی ایک چھوٹی سی دکان ہے، مگر اس کی شہرت ہندوستان کے بیشتر اردو آبادی تک پھیلی ہوئی ہے۔ یہ علم و ادب کے شائقین کا مرکز ہوا کرتا تھا، بڑے بڑے ادباء ، شعراء ، صحافی اور عاشقان اردو اس کے گرد جمع ہوتے تھے، ادبی موضوعات پر تبصرہ کرتے تھے، ادبی معرکے اور مکالمے بھی ہوتے تھے، یہ عاشقان اردو برنچ پر بیٹھ کر یا کھڑے ہوکر گھنٹوں علمی موشگافیاں کرتے اور مزہ لیتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ بک امپوریم کے مالک حمید انور تھے، وہ پرکشش شخصیت کے مالک تھے، ان کا خلوص ومحبت ادیبوں اور صحافیوں کو وہاں آنے پر مجبور کردیتا تھا، حمید انور کی ادب نوازی اور اردو زبان سے محبت نے چھوٹی سی دکان کو بڑی کائنات میں سما دی تھی۔ حالانکہ حمید انور خود نہ ادیب تھے نہ شاعر، نہ صحافی اور نہ مصنف، لیکن ان کے اردگرد ادیبوں، شاعروں، صحافیوں اور مصنفوں کا جمگھٹا رہتا تھا، وہ کتابوں کے ایک تاجر تھے، لیکن عام تاجروں سے الگ اورمنفرد تھے وہ۔ ادباء، شعراء اور مصنفوں سے ان کا محض کاروباری رشتہ نہ تھا بلکہ کاروباری سے زیادہ قلبی تعلق تھا۔ وہ معاملات کے نہایت صاف ستھرے اور بے باق آدمی تھے۔ طلبہ کی رہنمائی اور مدد بھی کر دیا کرتے تھے۔ اکثر طلبہ ان سے نئے رسائل و جرائد اور کتابیں ادھار لے جایا کرتے تھے اور وہ بخوشی دے بھی دیا کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ان کے انتقال کی جب خبر ہوئی تو بڑے بڑے ادباء و شعراء نے اظہار تعزیت کیا اور ان پر تاثراتی مضامین تحریر کیے ۔

زیر تبصرہ کتاب ’’محب اردوحمید انور اور بک امپوریم ‘‘(مطالعات و مشاہدات ) حمید انور کے انتقال کے بعد لکھے گئے مضامین کا مجموعہ ہے، جسے ان کے لائق فرزند جناب ڈاکٹر محمد ممتاز فرخ نے ترتیب دیا ہے۔ کتاب سات ابواب اور 356 صفحات پر مشتمل ہے۔ پہلا باب مضامین و تاثرات پر مشتمل ہے، اس باب میں حمید انور کے معاصرین، دوست و احباب اور رشتہ دار و متعلقین کے مضامین ہیں، جن کے مطالعہ سے حمید انور کی شخصیت پر بھرپور روشنی پڑتی ہے۔ یہ مضامین حمیدانور کے خلوص ووفا، ایثار و قربانی محبت و اپنائیت، ادب نوازی، رشتہ کی پاسداری، معاملات کی صفائی، کردار کی پاکیزگی کی گواہی دیتے ہیں، انہوں نے خاموشی کے ساتھ اردو کی خدمت کی، ادیبوں کی کئی نسل کو فروغ دیا اور ان کے اندر ادب کا ذوق پیدا کیا۔ دنیا سے گزر جانے کے بعد کون کس کو یاد کرتا ہے، لیکن جس طرح ادباء و شعرا نے ان کے انتقال کے بعد تعزیتی پیغامات بھیجے اور طویل و مختصر مضامین تحریر کئے یہ اس بات پر دال ہے کہ حمید انور پرکشش شخصیت کے مالک اور ایک بے ضرر انسان تھے، وہ ایک ایسا شجر سایہ تھے جس کی گھنی چھاؤں میں بیٹھ کر طلبہ و اساتذہ اور شعراء وادباء ٹھنڈک محسوس کرتے تھے اور کتب و رسائل کے ذریعے علمی پیاس بجھاتے تھے، مشہور ادیب و شاعر عطا عابدی اپنے مضمون میں تحریر کرتے ہیں:

’’ دراصل حمید انور صاحب کی ذات سماجی و ادبی معاملات سے دلچسپی لینے کے سبب بھی مرکز توجہ تھی، انہوں نے کئی حوالوں سے ادیبوںو شاعروں کی حوصلہ افزائی کی اور ان کے ذریعے اردو کتب و رسائل کی ترقی اور فروغ کی راہیں استوار کیں۔‘‘

حمید انور نے اپنی چھوٹی سی دکان بک امپوریم کو ایسی شہرت دی کہ اس کی حیثیت ادبی اڈے کی ہوگئی، بیشتر مضمون نگاروں نے حمید انور کے ذکر کے ساتھ بک امپوریم کا ذکر بھی دل کھول کر کیا ہے۔ بک امپوریم کی اہمیت اور زبان وادب کے فروغ کے حوالے سے اس کی افادیت کا اندازہ ان مضامین کے مطالعہ سے خوب ہوتا ہے، چھوٹی سی دکان میں نئی نئی کتابیں اور ملک بھر سے شائع ہونے والے رسائل وجرائد اور اردو ڈائجسٹ موجود ہوتے تھے۔محمد یونس ہرگانوی اپنے مضمون بعنوان ’’حمید انور ایک روایت، ایک حکایت‘‘ میں بک امپوریم کے تعلق سے تحریر کرتے ہیں:

’’ اردو بازار میں بلحاظ وسعت بک امپوریم سب سے چھوٹی دکان ہے، لیکن اس دکان کو روز اول ہی سے ایک خاص اہمیت حاصل رہی ہے۔ حمید انور کو اردو ادبیات اور رسالہ جات سے خاص دلچسپی تھی، ہندوپاک کے ناول، افسانے،شعری مجموعے، رسالے اور ڈائجسٹ کہیں ملیں نہ ملیں بک امپوریم میں دستیاب تھے، ان کی فراہمی پر خصوصی توجہ تھی، یہی وجہ ہے کہ بک امپوریم ادبی حلقوں میں بہت جلد مقبول ہو گیا۔ یہاں پر یہ تذکرہ بے محل نہ ہو گا کہ رحمانیہ ہوٹل کبھی ادیبوں اور شاعروں کی آماجگاہ رہا ہے، گھنٹوں گھنٹوں ان کی بیٹھک ہوتی تھی، اور چائے پر چائے کے دور چلتے رہتے تھے،آتے جاتے یہ بک امپوریم پرضرور ٹکتے، بلاشبہ بک امپوریم کے مقبول عام ہونے میں حمید انور کی کاروباری سوجھ بوجھ، محنت و مشقت اور اخلاق بات کو بڑا دخل رہا ہے، بک امپوریم علمی وادبی حلقے کا انفارمیشن سینٹر بھی رہا ہے۔ ادیبوں اور شاعروں میں کون کب آئے تھے؟کہاں گئے؟ کہاں ملیں گے؟ بک امپوریم سے معلوم کرلیں۔‘‘

دوسرا باب مکتوبات پر مشتمل ہے، اس باب میں 56 مکتوبات ہیں، مختلف ادباء ، شعراء، صحافی اور مصنفین حضرات کے وہ خطوط جو انہوں نے حمید انور کو تحریر کئے، اس حصہ میں بڑے سلیقے سے ترتیب دیئے گئے ہیں۔خطوط کی ترتیب میں تاریخ اور سنین کی رعایت برتی گئی ہے،ان میں پہلا خط علقمہ شبلی کا ہے جو 23 مارچ 1955 کا ہے، آخری خط پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی کا ہے جو 10 جون 2000 کا تحریر کردہ ہے، یہ خطوط تقریباً نصف صدی پر محیط ہیں، ان میں زیادہ تر ذاتی اور تجارتی نوعیت کے ہیں،لیکن ان میں ان کے عہد کے نشیب و فراز اور حالات کی عکاسی بھی ہے اور علمی وادبی سرگرمیوں کی جھلکیاں بھی۔ تیسرا باب مشاہیر کے ان خطوط پر مشتمل ہے جو حمید انور کے انتقال کے بعد تعزیت کے طور پر لکھے گئے تھے۔ان خطوط کی تعداد 24 ہے، اس کی ترتیب میں بھی تاریخ اور سنین کا لحاظ رکھا گیا ہے۔ چوتھاباب علقمہ شبلی اور پروفیسر راشد طراز کے منظوم خراج عقیدت پر مبنی ہے۔

پانچواں باب ڈائری کے اوراق سے ہے،حمید انور صاحب پابندی سے ڈائری لکھا کرتے تھے، ڈائری کے اس حصہ کا مطالعہ حمید انور کے عہد کی سماجی، ادبی، اور عصری منظر نامہ پر روشنی ڈالتا ہے، انہوں نے نہایت سادہ اور آسان زبان میں روزنامچے تحریر کیے ہیں،یہ حصہ گرچہ مختصر ہے،لیکن اہم ہے۔ ڈاکٹر قاسم خورشید اپنے مضمون میں حمید انور کی ڈائری پر تبصرہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:

’’حمید انور نے بہت عرق ریزی اور چابکدستی سے روزنامچہ تحریر کیا، مختلف نکات پر گفتگو بھی کی، بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ اپنے عہد کے سماجی، ادبی ،ملی و عصری منظر نامے کو سمجھنے کے لیے ان روز نامچوں کا مطالعہ ناگزیر ہے، ان کی تحریر بالکل شخصیت سے مشابہ نظر آتی ہے۔‘‘

چھٹا باب متفرقات ہے اس میں مشاہیر کی ایسی تحریریں جمع کی گئی ہیں جن کا تعلق کسی نہ کسی جہت سے حمید انور سے رہا ہے۔ ساتواں باب تصاویر کی جھلکیاں پیش کرتا ہے۔ کتاب کی پشت پر معروف ادیب و صحافی حقانی القاسمی کی جامع تحریرکو جگہ دی گئی ہے۔ صفحہ28 پر ’’تو قیت حمید انور ‘‘ہے جسے محمد شکیل استھانوی نے محنت سے ترتیب دیا ہے۔ اس میں انہوں نے تاریخ پیدائش 25؍جنوری 1931 لکھاہے جبکہ انہوں نے خود اپنے مضمون میںصفحہ نمبر 174 پر تاریخ پیدائش 1930 تحریر کی ہے۔پہلا باب بہت طویل ہے، سارے مضامین اسی باب کے تحت جمع کردیئے گئے ہیں۔ اگر ان مضامین کو موضوعات کے تحت دوتین ابواب میں تقسیم کئے جاتے تو زیادہ بہتر ہوتا۔

مذکورہ کتاب حمید انور کی پرکشش شخصیت اور حیات و خدمات کو جاننے اور سمجھنے کے لیے نہایت مفید ہے، اس کے ساتھ ہی بک امپوریم کی ادبی اہمیت اور اس کی تاریخ پر بھی خوبصورتی کے ساتھ روشنی پڑتی ہے، کتاب اس لائق ہے کہ اساتذہ، طلبہ اور نئی نسل کو خاص طور پر مطالعہ کرنا چاہئے۔بک امپوریم آج بھی قائم ہے، ان کے چھوٹے فرزند امتیاز انور فہمی اپنے والد کی وراثت کو سنبھالے ہوئے ہیں۔ بڑے فرزند ڈاکٹر ممتاز فرخ مبارکباد اور شکریہ کے مستحق ہیں کہ انہوں نے نہ صرف اپنے والد بلکہ ایک خادم اردو اور عاشق اردو کی زندگی و شخصیت اور ان کے احوال و کوائف پر مشتمل کتاب ہمارے سامنے پیش کر دیا تاکہ ہم اپنے محسنوں کو جان سکیں، یاد کر سکیں اور ان سے استفادہ بھی کر سکیں، مرتب کتاب کا پیش لفظ بھی عمدہ ہے، انہوں نے اپنے والد کے بعض ان پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے جو عموماً نظروں سے اوجھل ہوتے ہیں۔ ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس نئی دہلی سے شائع اس کتاب کی قیمت 350 روپے ہے۔ کتاب کی ترتیب و پیشکش بہتر ہے،بک امپوریم، سبزی باغ ،پٹنہ سے کتاب حاصل کی جاسکتی ہے یا مرتب کتاب سے اس نمبر 9798909392 پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

______

متعلقہ خبریں

Back to top button