مضامین

سال نو کا حقیقی پیغام!

{اے انسان! تو کشاں کشاں اپنے رب کی طرف چلا جارہا ہے}

مولانامحمد عبدالحفیظ اسلامی

سینئر صحافی و کالم نگار۔ حیدرآباد

Cell: 9849099228

انسان جس لمحہ دنیا میں آتا ہے اسی وقت سے اس کی متعینہ عمر کے گھٹنے کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ حقیقت بھی یہ ہے کہ حضرت انسان پیدا ہوتے ہی اپنی حقیقی منزل کی طرف بہت تیزی کے ساتھ، ہر پل ہر لحظہ آگے بڑھتے رہتا ہے۔ مگر ہم انسانوں کی اکثریت اس بات کو پس پشت ڈال دیتی ہے کہ جو زندگی ہمیں عطا کی گئی ہے اسے کس کام میں صرف کی جائے اور اپنی قوت و صلاحیت کو کن چیزوں میں لگایا جائے۔

چنانچہ اب سے چند گھنٹوں کے بعد عیسوی سال کا سورج غروب ہونے کو ہے اور پھر ایک نئے سورج کے طلوع کے ساتھ ہماری زندگی کا ایک اور نیا سال انشاء اللہ شروع ہوجائے گا، اس طرح ہم سب کی مدت حیات کے گزرے ہوئے ایام ہمیشہ کے لئے غروب ہوجائیں گے، مگر اس حقیقت کے باوجود انسان تو یہ سمجھتا ہے کہ اس کی عمر میں اضافہ ہوا ہے، یقینا اس کی پیدائش سے لے کر اب تک کے گنتی کے حساب سے تو کسی کی عمر ایک دن کی بھی ہوسکتی ہے، کسی کی پانچ برس تو کسی کی پچیس اور اسی طرح ساٹھ سال اور اس سے بھی زیادہ ہوجائے گی۔ مگر احوال واقعی تو یہ ہوتے ہیں کہ ان کی زندگی کے اتنے دن اور مہینے اور برس خدا کی دی ہوئی عمر میں سے گھٹ گیے،کم ہوگئے۔

سال نو کے استقبال اور اس کے جشن کی تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں، منچلے و بے فکر لوگ اس کے لئے لاکھ جتن کررہے ہیں، یعنی ہر آدمی اپنی نفسانی خواہش و مالی خوشحالی اور جسمانی قوت و صلاحیت کے عین مطابق سال نو کو رنگین بنانے کے لئے بے تاب نظر آرہا ہے۔ دوسری جانب مختلف مالکانِ تفریحی ادارہ، ہوٹلس اور میخانے بالخصوص مضافاتی علاقوں میں جشن سال نو کی اپنی بساط بھر کوشش اور تیاریاں کررہے ہیں۔ ہر سال اس موقع پر بہت سے لوگ بدمست ہوکر اپنی اس بے خودی کے عالم میں انسانی حیا کو شرمسار کرنے والے اعمال ان سے سرزد ہوتے ہیں اور یہ بھی دیکھنے میں آیا اور گزشتہ اسی حوالے سے پڑھا گیا اور دو روز بعد بھی اخبارات میں شائد یہ خبریں پڑھنے کو ملیں گی کہ فلاں جگہ فلاں شخص نے حالت نشہ میں قتل کا ارتکاب کیا اور فلاں مقام پر کسی خاتون کی بے حرمتی کی گئی۔ یہ بھی خبر آئے گی کہ فلاں شہر اور ملک میں اتنے لوگ نشہ کی حالت میں حادثہ کا شکار ہوکر نئے سال کی صبح کا دیدار بھی نہ کرسکے۔ یہ تھا جشن سال نو اور اس میں کئے جانے والے حرکات و سکنات کا مختصر تعارف۔

اب ہم سال نو کے حقیقی پیغام کی طرف توجہ دیں تو معلوم ہوگا کہ انسان کی زندگی خواہ ہجری سال ہو یا عیسوی سال کا آغاز۔ یہ دراصل سارے انسانوں کے لئے یوم احتساب ہے۔ کسی شاعر نے بہت خوب کہا ہے کہ آدمی دنیا کی محبت میں عیش کوشی اور لذات نفسانی میں مگن زندگی گزار دیتا ہے اور اپنے انجام سے بے خبر پوری عمر یوں ہی ضائع کردیتا ہے۔

ہم اپنے عزم پر قائم رہے راہ محبت میں

نہ آغاز سفر سمجھے نہ انجام سفر جانا

ہر انسان کو اس کے آغاز سفر میں جبکہ وہ اپنی اچھی بری چیز میں تمیز کرنا شروع کردیتا ہے اس کا مالک اور آقا اس کے سامنے یہ بات کھول کر رکھ دیتا ہے کہ اے بندے تو جس سفر پر چل پڑا ہے اس کی ایک منزل ہے، تیرا ہر قدم اور تیری اس منزل کی طرف بڑھنے کا عمل جسے زندگی یا مہلت حیات کہا جاتا ہے اس کا اختتام ایک دن ہوکر رہے گا، کسی بشر کو بھی اس سے مفر نہیں!!!۔

گزرے ہوئے سال کا اختتام اور نئے سال کے آغاز پر ہر انسان کو اپنا احتساب کرنا ہوگا کہ وہ گذشتہ عمر کے ایام کس حال میں گزارے، اگر گناہ و جرائم کے ارتکاب میں گزارے تو باقی آنے والی نامعلوم مہلت عمل کو غنیمت جانتے ہوئے اپنی بے راہ روی اور خدا سے بغاوت کی روش ترک کردے اور اپنی عمر کا حساب لگائے کہ اس نے کب پیدا ہوا تھا اور آج کتنے برس کا ہوچکا ہے، پھر اس کے بعد سمجھ لے کہ اس کی زندگی کتنی کچھ کم ہوگئی اور آگے کی حیات اسی قدر کم ہوگئی۔ پروردگار عالم اپنے بندوں کو اسی جانب متوجہ فرما رہا ہے کہ

یَا أَیُّہَا الْإِنسَانُ إِنَّکَ کَادِحٌ إِلٰی رَبِّکَ کَدْحًا فَمُلٰقِیْہِ

*اے انسان! تو کشاں کشاں اپنے رب کی طرف چلا جارہاہے اور اس سے ملنے والا ہے* (ترجمانی سورہ انشقاق:۶)

یعنی ہر انسان کو یہ بتا دیا جارہا ہے کہ دیکھو تمہاری سعی و جہد، تگ و دو اور محنت و مشقت، دوڑ دھوپ اور تمہارے سب مشاغل حیات جو تم دنیا میں انجام دے رہے ہو یاد رکھنا (اس کا حساب دینے کے لئے) تم اپنے رب کی طرف جارہے ہو، اس طرح آگہ کیا جارہا ہے کہ جو کچھ زندگی میں عمل کیا جارہا ہے یہ صرف دنیا کی حد تک نہیں ہے بلکہ ایک ایک لمحہ مہلت کے اچھے و برے اعمال کا حساب لیا جانے والا ہے۔

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’آدمی کا پائوں قیامت کے دن اس کے رب کے پاس سے نہیں ہٹے گا یہاں تک کہ اس سے پانچ چیزوں کے بارے میں پوچھ لیا جائے: اس کی عمر کے بارے میں کہ اسے کہاں صرف کیا، اس کی جوانی کے بارے میں کہ اسے کہاں کھپایا، اس کے مال کے بارے میں کہ اسے کہاں سے کمایا اور کس چیز میں خرچ کیا اور اس کے علم کے سلسلے میں اس پر کہاں تک عمل کیا‘‘۔

اس طرح سال نو کا حقیقی پیغام صرف یہی ہے کہ ہم اپنا محاسبہ کریں اور دیکھیں کہ ہم نے پچھلے ایام میں کیا کچھ کمایا اور خرچ کیا اور کہاں کہاں بجا طور پر صرف کیا یا بیجا طریقہ سے خرچ کیا، ٹھیک اسی طرح اللہ تعالیٰ کی جملہ نعمتوں کو یاد کریں اور اس کا شکر ادا کریں، اگر دنیا میں جو کچھ مشقت اٹھاکر کمایا گیا ہے اسے یوں ہی ضائع کردیا تو یہ سراسر اللہ کی ناشکری ہوئی، اللہ تعالیٰ ناشکرے اور جھوٹی شان بگھارنے والے شخص کو پسند نہیں فرماتے۔

میں اپنے سارے برادران وطن اور بالخصوص برادران ملت کے لوگوں اور خاص طور پر مسلم لڑکے اور لڑکیوں سے گزارش کروں گا کہ خدارا اس سال نو کی بیجا تقاریب سے اپنے کو دور رکھیں۔ اے نوجوانو! تمہاری جوانیاں ایک امانت ہے، اس میں خیانت نہ کرو، بے پردگی، بے حیائی ایمان کے لئے زہر قاتل ہے، اس سے بچو۔ شراب کباب، رقص و سرور کی محفلیں، بے حیائی و عریانیت کے تمام مراکز سے بالکل اجتناب کرنا چاہیے، یہ اہل ایمان لڑکے لڑکیوں کے لئے ہلاکت کے سامان ہیں۔

والدین کی ذمہ داری ہے کہ اپنے بچوں کی اچھی حفاظت کریں، انہیں بچپن ہی سے اسلامی و اخلاقی عادات کا پابند بنائیں۔جشن سال نو کے حسین نام سے جتنے بھی ایونٹ کیے جاتے ہیں، اس میں خیر کا پہلو نہیں کے برابر ہی ہوتا ہے، لہٰذا ہم خود اس سے پرہیز کریں اور اپنے نوجوانوں کو بھی اس سے دور رہنے کی تلقین کریں۔

زنگی کا ہر لمحہ قیمتی ہے، اس لئے اسے حیات مستعار سمجھتے ہوئے خدائے تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری میں صرف کریں اور اپنی بچی ہوئی زندگی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے گزاریں۔

٭٭٭

 

 

 

متعلقہ خبریں

Back to top button