مضامین

کیا مسلم مکت بھارت کا خواب شرمندہ تعبیر ہوجائے گا؟

تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ رہنماؤں کی بزدلی اور مفاد پرستی نے قوموں کو غلام بنادیا ہے

عبدالغفار صدیقی
چیرمین راشدہ ایجوکیشنل اینڈ سوشل ٹرسٹ
9897565066
ملک میں بعض تنظیمیں بڑے زور و شور سے یہ شور مچارہی ہیں کہ بھارت کو مسلم مکت بنانا ہے۔مسلم مکت سے ان کا مطلب یہ ہے کہ بھارت کی سیاست اور فیصلہ کن اداروں میں مسلمان نہیں ہوں گے۔انھیں کسی قسم کا مشورہ دینے کا اختیار بھی نہیں ہوگا۔وہ بھارت میں حق ملکیت سے محروم کردئے جائیں گے۔ان کی حیثیت غلاموں کی ہوگی۔وہ خدمت خاص طور پر صفائی و ستھرائی کے شعبے سے متعلق کردیے جائیں گے۔دراصل یہ مسلم مکت بھارت یا دوسرے الفاظ میں ہندو راشٹر جسے رام راجیہ کے مقدس نام سے بھی جانا جاتا ہے،سنگھ کا نصب العین ہے۔جس وقت بھارتی سیاست میں مسلمان لادینی نظام کو ترجیح دے رہے تھے اور سیکولر بھارت کے لیے قربانیاں پیش کررہے تھے،اس وقت سنگھ کے نظریہ ساز مذہبی حکومت کے قیام کی منصوبہ بندی کررہے تھے۔جب مسلم علماء سیاست کو اپنے دین سے باہر کا راستا دکھارہے تھے اور نظام مصطفےٰ کو بحیثیت نظام حیات رجیکٹ کررہے تھے اس وقت ہندو دانشور اپنے مذہبی نظریات میں سیاست کو اہم مقام دے رہے تھے۔آپ ہیڈ گیوار اور گولوالکر کی تحریروں کا مطالعہ کریں گے تو آپ میرے خیالات کی تائید کریں گے۔
مسلم مکت بھارت کے تعلق سے مسلمانوں کے دو گروہ ہیں۔مسلمانوں کی بڑی تعداد جو ہمیشہ سے سارے اجتماعی کام اللہ سے کرانے کی عادی ہے۔ اس معاملے میں بھی پرسکون اور مطمئن ہے۔ان کا کہنا ہے کہ بھارت سے مسلمانوں کو کوئی نہیں نکال سکتا۔ وہ یہیں رہیں گے،ہاں اللہ جس حال میں رکھے گا اسی حال میں رہیں گے،اپنی حالت کو بدلنے کی از خود کوئی کوشش کرنا ان کے نزدیک تقدیر پر ایمان کے منافی ہے۔بہت کم لوگ ایسے ہیں جو نوشتہئ دیوار پڑھ کر اپنی تقدیر کا صفحہ پڑھ رہے ہیں۔ان کو یقین ہے کہ جس رفتار سے بھارتی سیاست اور اقتدار میں تبدیلیاں آرہی ہیں۔مسلم مکت بھارت کے علمبردار جس تیزی سے سے آگے بڑھ رہے ہیں اور امت مسلمہ جس طرح خواب غفلت میں سوئی ہوئی ہے اگر یہی حالت بدستور جاری رہی تو بھارت بہت جلد مسلم مکت ہوجائے گا۔تقدیر پرمیں بھی ایمان رکھتا ہوں،مگر عمل کرنے کے بعد۔میں بھی اللہ پر توکل کرتا ہوں لیکن اپنے اونٹ کو کھونٹے سے باندھنے کے بعد۔مجھے نبی اکرم ﷺ کی وہ حدیث معلوم ہے جس میں ایک صحابی نے نبی کریمﷺسے پوچھا کہ اے اللہ کے رسولﷺ! میں اپنے اونٹ کو باندھ کر اللہ پر توکل کروں یا اس کو چھوڑ دوں، پھر اللہ پر توکل کروں؟ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: ایسانہ کرو، بلکہ پہلے اونٹ کو باندھو، اور پھر اللہ تعالیٰ پر توکل کرو۔(ترمذی)
مجھے اللہ کا یہ طریقہ بھی معلوم ہے کہ”بے شک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت کو نہ بدلے“(سورہ الررعدآیت 11)۔مجھے معلوم ہے کہ اللہ نے ان قوموں کے ساتھ کیا سلوک کیا جنھوں نے اللہ کی آیات اور اس کے پیغام کا مذاق اڑایا۔اللہ نے لوط کی بستی کو ان عابدوں سمیت الٹ دیا جو ہر لمحہ”اللہ ھو“کی ضربیں لگارہے تھے۔مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ اللہ کی سنت نہیں بدلتی۔”پس تو اللہ کے قانون میں کوئی تبدیلی نہیں پائے گا، اور تو اللہ کے قانون میں کوئی تغیر نہیں پائے گا۔“(فاطر43)۔آپ کتنا بھی شور مچائیں کہ ہم نے آزادی کے لیے عظیم تر قربانیاں دیں،ہم نے ہندوستان کو سونے کی چڑیا بنانے کے ہزاروں جتن کیے،آپ کہتے رہئے کہ ہم نے اپنے دور اقتدار میں غیر مسلم رعایا کو مساویانہ حقوق دیے۔آپ کی یہ مستند و برحق باتیں کون سنتا ہے۔باطل حق کے لیے گونگا اور بہرا ہوتا ہے۔باطل جب حق کو مٹانے کی منصوبہ بندی کرتا ہے تو تمام ہتھکنڈے اپناتا ہے۔وہ تاریخ کو مسخ کرتا ہے۔وہ مقابل قوم کو مختلف مسائل میں الجھا دیتا ہے۔وہ اس کی تہذیبی شناخت اور ورثے کو ٹھکانے لگاتا ہے۔اس کے یہاں امن و مساوات اور عدل و انصاف،سب کا ساتھ،سب کا وکاس کے الفاظ صرف عوام کو گمراہ کرنے کے لیے ہوتے ہیں۔
مجھے معلوم ہے کہ اندلس موجودہ اسپین اور پرتگال کو مسلم مکت کس طرح بنایا گیا۔کس طرح فلسطین کو اسرائیل کی شکل دی گئی۔کس طرح خلافت عثمانیہ ختم کی گئی۔وہ سمر قند و بخارا جہاں کبھی دین اسلام کے شارح پیدا ہوئے وہ اذانوں کی آواز سننے کو ترس گئے۔بھارت کے مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ یہاں سے انھیں کوئی نہیں نکال سکتا۔وہ نہیں جانتے کہ کبھی کبھی حالات اس طرح بنادیے جاتے ہیں کہ لوگ خود ہی ترک وطن پر مجبور ہوجاتے ہیں،کیا انھیں اپنے ملک میں روہنگیاؤں کے کیمپ نظر نہیں آتے؟
کسی قوم کو ختم کرنے کے لیے اس کی زبان ختم کردی جاتی ہے۔بھارت میں آزادی کے بعد سب سے پہلا حملہ زبان پر ہوا۔زبان ختم ہوجانے سے قوم گونگی ہوگئی۔اسی لیے آج یہ حالت ہوگئی کہ اپنی بات دوسروں کو سمجھا نہیں پارہی ہے۔وہی اردو جس کے نعروں سے وطن آزاد ہوا آج دہشت کا استعارہ بن گئی۔زبان چلی گئی تو معاشی سرگرمیاں بھی متأثر ہوئیں،پورا تعلیمی نظام بھی چوپٹ ہوگیا۔ملک میں امت مسلمہ کوجو زخم دیے جارہے ہیں وہ مسلم مکت بھارت کی جانب بڑھتے ہوئے قدم ہیں۔ آزادی کے امرت مہوتسو کے موقع پر کی جانے والی سرکاری تقریروں اور تقریبات سے مسلمان غائب ہیں۔قلعہ کی فصیل سے ہونے والا خطاب بھی اور نئی صدر جمہوریہ کا خطاب بھی مسلم مجاہدین کے تذکرہ سے خالی رہا۔یہ آزادی کا امرت مہوتسو نہیں بلکہ مسلم مکت امرت مہوتسو ہے۔بقول شاعر :
ہم نے کیا خون جگر سے جسے رنگین
ہمارا ہی فسانے میں کہیں نام نہیں ہے

زبان کے بعد شعائر اسلام کو نشانہ بنایا گیا اور اب اس میں مزید شدت آگئی ہے۔جس قدر تیزی کے ساتھ قدیم اور شاہی مساجد پر مقدمات عدالتوں میں سماعت کے لیے قبول کیے جارہے ہیں اس سے لگتا ہے کہ بہت جلد تمام مساجد نشانے پر آجائیں گی۔تاج محل،لال قلعہ،قطب مینار سمیت کئی قدیم تعمیرات کو ہندو دیوی دیوتاؤں کے نام پر ہڑپنے کی تیاری ہے،سڑکوں کے نام بدلے جارہے ہیں،شہروں،گاؤں اور اسٹیشنوں کے مسلم نام تبدیل کیے جارہے ہیں۔مدارس کے تعلق سے پہلے کہا گیا کہ اس میں دہشت گردی کی تعلیم ہوتی ہے اب براہ راست ان کے وجود پر ہی سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔(یہ الگ بات ہے کہ مدارس بھی اپنی عوامی افادیت کھوچکے ہیں)کبھی مسلما نوں کی بڑھتی آبادی کا پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے، کبھی گھر واپسی کے نام پر مسلمانوں کو ہندو مذہب قبول کئے جانے پر مجبور کیا جا رہا ہے، مسلم لڑ کیوں کو بہلا پھسلا کر پھیرے لیے جارہے ہیں۔کبھی مسلمانوں کو پاکستان جانے کا مشورہ دیا جارہا ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ ’رام زادوں کا مقابلہ حرام زادوں سے ہے، حد تو یہ ہے کہ راشٹر پتا مہاتما گاندھی کے قاتل گوڈسے کے ساتھ عقیدت کا اظہارکیا جارہا ہے۔ گوڈسے کو سچا دیش بھکت ثابت کیا جارہا ہے۔پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں مسلم نمائندگی مسلسل کم ہورہی ہے۔مرکزی کابینہ میں کوئی قابل ذکرمسلم چہرہ نہیں ہے۔گورنرس کی فہرست میں صرف ایک اردو نام ہے۔سپریم کورٹ کی اعلیٰ سطحی بینچوں میں کوئی مسلم جج نہیں۔کسی بھی آیوگ میں مسلمان چیرمین نہیں،یہاں تک کہ اقلیتی کمیشن کا چیرمین تک غیر مسلم ہے۔28ریاستوں میں سے کسی میں بھی مسلم وزیر اعلیٰ نہیں۔یہ سب مسلم مکت بھارت نہیں تو اور کیا ہے؟
ان تشویش ناک حالات میں بھی امت مسلمہ متحد ہونے کو تیار نہیں ہے۔چچا بھتیجے اپنی اپنی جمعیۃ چلارہے ہیں،ہر جگہ دو گروپ بنے ہوئے ہیں،دن بھراللہ رسول کانام لینے والوں کو متحد ہونے کا خیال تک نہیں آرہا ہے؟نہ مسجد میں متحد نہ میدان سیاست میں۔امام مسلکوں میں اور رہنما سیاسی جماعتوں میں تقسیم ہیں۔جہاں کہیں الیکشن ہونے کی تاریخیں قریب آتی ہیں۔وہاں مسلم امیدواران کی باڑھ آجاتی ہے۔ایک ایک سیٹ پر درجن بھر مسلمانوں کے ہورڈنگ اور پوسٹر دکھائی دینے لگتے ہیں۔اس میں بھی بڑی سیاسی جماعتیں توبالکل آخری وقت میں میدان میں آتی ہیں مسلم قیادت والے ایک سال پہلے سے شور مچانے لگتے ہیں۔ملک کے مستقبل کی کسی کوکوئی فکر نہیں،کسی کے پاس کوئی منصوبہ بندی نہیں،بند باندھنے کا کسی کو خیال نہیں۔بس اردو صحافت کے شیر بنے ہوئے ہیں۔ایسے میں مسلم مکت بھارت کے خواب کو شرمندہئ تعبیر ہونے سے کیسے روکا جاسکتا ہے؟

 

 

متعلقہ خبریں

Back to top button