مضامین

"روزہ” اللہ اور بندہ کے تعلق اور "انسانی احساس” کو زندہ کرنیوالی "عبادت”

تحریر: – ایس. ایم. عارف حسین. اعزازی خادمِ تعلیمات. مشیرآباد. حیدرآباد

” روزہ” فارسی لفظ ہے جسکو عربی زبان میں "صوم” کہا جاتا ہے جسکے معنی "رُک جانے” یا ٹہر جانے کے ہیں.لھذا "روزہ” صبح صادق سے غروب آفتاب تک جائز کھانے پینے اور بیوی سے جنسی تعلقات سے رکے رہنے کا عمل ہے.

"روزہ” مذہب اسلام کے پانچ بنیادی ستونوں یعنی ایمان- نماز- روزہ- زکواۃ اور حج میں سے ایک ہے۔ روزہ ایک مخفی عبادت ہے یعنی اس میں ریاکاری کی قطعی گنجائیش نہیں ہوتی.ض اس پر عمل کرنےکا علم صرف اللہ تعالی اور بندہ کو ہوتا ہے۔

انسان کو اللہ تعالی کی نعمتوں جیسے کھانے پینے اور اپنی بیوی سے جائز تعلقات سے لطف اندوز ہونے سے جو روحانی و جسمانی راحت ملتی ہے روزہ رکھنے کی وجہ سے ان سے رکے رہنے سے جن دقتوں کا سامنا ہوتا ہے اسکا عملی تجربہ ہوتا ہے اور مزکورہ راحتوں سے محروم انسانوں کی تکلیف کا عملی احساس کرنیکا ذریعہ بھی ہے.

مزید علم طب اور سائینس کے ماہرین نے یہ انکشاف کیا ہیکہ روزہ رکھنے سے انسان کو کئی ایک بیماریوں سے نجات ملتی ہے اور حیات میں اضافہ کا سبب بھی ہوتا ہے.” روزہ” کے ذریعہ اللہ تعالی کا منشاء اپنے حکم کی تعمیل کے ساتھ انسانوں کو اپنی عنایت کی ہوئی نعمتوں کا عملی احساس دلوانا ہے تاکہ ان نعمتوں سے محروم انسانوں کی کھانے پینے کی اشیاء سے مدد کیجاے جو یقیناً "حقوق العباد” کا حصہ ہے. اللہ تعالی خود حقوق العباد کی تلقین کرتے اور اسکو پسند کرتے ہیں اور اسپر اجر دینے کا وعدہ کرچکے ہیں جو اللہ تعالی کی اپنے بندوں سے محبت کا عین ثبوت ہے۔

کیا آج ہم مومنین اپنے پڑوسی رشتہ دار اور دیگر مسلمان بھائیوں کی بھوک پیاس اور دیگر تکالیف کا احساس کرتے ہوے انکی طبعیی و مالی مدد کرپارہے ہیں ؟ یا پھر دنیا کو بتانے اور نام و نمود کیلیے وقت کے مشھور اداروں کی مالی امداد کو اپنا شیوہ بنالیے ہیں جبکہ خاص بھائی و بہن و قریبی رشتہ دار بھوک پیاس کے علاوہ بھاری مالی قرض کے نیچے دبے ہوے سانس لے رہے ہیں. اللہ تعالی سے دعا ہیکہ اللہ تعالی ہم مومنین کو پہلے اپنے پڑوسیوں اور خونی رشتہ داروں کی ہر لحاظ سے مدد کرنیکی توفیق دے. آمین.

"روزہ” رکھنے سے بندہ کو اللہ تعالی کے وجود پر یقین مضبوط ہوتا ہے جو ایمان کی بنیاد ہے.اللہ تعالی ایمان والوں کی دیگر عبادات جیسے نماز زکواۃ اور حج کا صلہ یا ثواب کتنا ہوگا اسکا اعلان کرچکے ہیں پر "روزہ کے اجر” کے تعلق سے یہ اعلان کرچکے ہیں کہ” اسکا اجر میں خود دونگا "چیونکہ وہ میرے لیے رکھا جاتا ہے. بلا شبہ اس اجر کی حد کو انسان کی سونچ بھی نہیں پہنچ سکتی.

اللہ تعالی قرآن میں فرماتا ہے” اے ایمان والو تم پر روزے فرض کئے گئے جیسے اگلوں پر فرض ہوئے تھے کہ تمہیں پرہیزگاری ملے”( سورہ البقرہ).

"روزہ” ایک طرف بندہ کو اپنے خالق سے قریب کرتا ہے اور اسکے موجود ہونے کو یقین کامل میں شامل کرتا ہے تو دوسری جانب اپنے ہم جنس انسانوں کی تکالیف یعنی بھوک و پیاس کا عملی احساس دلاتے ہوے انکی مدد کرنیکی جانب راغب کرتا ہے جو حقیقت میں حقوق العباد ہے. ساتھ ہی ساتھ روزہ مومن کو پرہیزگاری یعنی نیک اعمال کے کرنے اور برے کاموں سے پرہیز کرنے کا سبق دیتا ہے تاکہ اپنے مالک حقیقی اللہ تعالی کے حکم کی تعمیل کرتے ہوے دنیا کے بعد کی زندگی میں کامیابی حاصل ہو جو ہمیشہ رہنے والی ہے.

نتیجتاً ایک مومن کو چاہئیے کہ نہ صرف ماہ رمضان بلکہ زندگی کی آخری سانس تک اللہ تعالی کے حکم کے مطابق جائیز کاموں کو انجام دے اور جن کاموں سے پرہیز کرنے کا حکم دیا گیا ہے اس سے دوری اختیار کرے اور دیگر انسانوں کی اخلاقی- طبعیی و مالی مدد کرے جس کے نتیجہ میں نہ صرف اس دنیا بلکہ موت کے بعد کی” ابدی زندگی’ میں بھی کامیابی حاصل ہوگی انشاء اللہ.

اللہ تعالی ھم مسلمانوں کو روزہ کے ذریعہ اللہ تعالی کے حکم کی تعمیل کرنے اور حقوق العباد کے ادا کرنیکی توفیق عنایت کرے. آمین.

تحریر: – ایس. ایم. عارف حسین. اعزازی خادمِ تعلیمات. مشیرآباد. حیدرآباد.

رابطہ: 9985450106

email: [email protected]

 

 

 

 

 

متعلقہ خبریں

Back to top button