نیشنل

ٹوٹ گیا مودی کا بھرم۔400 پار کا خواب ہوا چکناچو ر

شجیع اللہ فراست

کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے۔ لوک سبھا انتخابات کے نتائج سامنے آگئے ہیں اور بی جے پی اپنے بل پر اکثریت سے کافی دور رہی ہے۔ اتحادی پارٹیوں کے ساتھ وہ حکومت بنانے کے لئے درکار 272 کے ہندسہ کو  پار کر چکی ہے لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پکچر ابھی باقی ہے۔ کیوں کہ ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ انڈیا اتحاد کے قائدین بی جے پی کے اتحادیوں نتیش کمار اور چندرا بابو نائیڈو سے ربط میں ہیں جنہوں نے اپنی اپنی ریاستوں بہار اور آندھراپردیش میں اچھا مظاہرہ کیا ہے۔ اگر یہ اتحادی بی جے پی کا ساتھ چھوڑتے ہیں تو این ڈی اے کا حکومت بنانا مشکل ہوسکتا ہے۔ ملک کے تاریخی انتخابات میں بی جے پی اور مودی کی طاقت کا بھرم ٹوٹ گیا  اور اگزٹ پولس غلط ثابت ہوئے۔ ان نتائج سے بی جے پی کی حامی گودی میڈیا کو بھی سبکی اٹھانی پڑی اور ایک نام نہاد سفالوجسٹ پرشانت کشور کو بھی منہ کی کھانی پڑی جنہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ بی جے پی 2019 ء میں حاصل 303 سیٹوں سے زیادہ سیٹیں حاصل کرے گی جبکہ بی جے پی 250 کے ہندسہ سے نیچے ہے اور اب اسے حکومت بنانے کے لئے تلگودیشم پارٹی اور جے ڈی یو کی بیساکھیوں کا سہارا لینا پڑ رہا ہے۔

 

نتیش کمار نے اندازوں کے برخلاف بہار میں اچھا مظاہرہ کیا ہے جبکہ چندرا بابو نائیڈو کی تلگودیشم پارٹی نے آندھراپردیش میں نہ صرف زیادہ تر لوک سبھا سیٹیں جیتی ہے بلکہ پارٹی 5 سال بعد ریاست میں پھر سے حکومت بنا رہی ہے  اور جگن موہن ریڈی کی وائی  ایس  آر کانگریس پارٹی کو شکست ہوگئی ہے۔ ملک کی دو بڑی ریاستوں اترپردیش اور مہاراشٹرا نے عملاً بی جے پی اور این ڈی اے کو مسترد کر دیا ہے۔  اترپردیش میں انڈیا اتحاد کا مظاہرہ زبردست رہا جہاں سماج وادی پارٹی کے اکھلیش یادو اور کانگریس کے راہول گاندھی کی جوڑی کام کر گئی۔ اترپردیش میں  انڈیا اتحاد نے بی جے پی کو زبردست دھکہ لگایا جس نے پچھلے لوک سبھا انتخابات میں تنہا 62 نشستیں حاصل کی تھیں۔ اسے اس مرتبہ 20 سے زیادہ سیٹوں کا نقصان اٹھانا پڑا۔

 

مہاراشٹرا میں جہاں بی جے پی خاص طورپر پارٹی کے چانکیہ امیت شاہ نے دو اہم مقامی جماعتوں این سی پی اور شیوسینا میں پھوٹ ڈالی تھی کو عوام نے منہ توڑ جواب دیا۔ 2024 ء کی اس لڑائی  میں ادھو ٹھاکرے فاتح رہے اور ان کی قیادت میں شیوسینا یوبی ٹی، این سی پی (ایس پی) اور کانگریس کے مہا وکاس اگھاڑی نے بی جے پی کی قیادت والے مہا یو ٹی الائنس کو پچھاڑ دیا اور عوام نے عملاً ادھو ٹھاکرے کی شیوسینا کو اصلی شیوسینا ہونے کا سرٹیفکیٹ دے دیا۔ یہی بات شردپوار کی این سی پی کے لئے کہی جاسکتی ہے۔ بی جے پی نے شیوسینا میں ایکناتھ شنڈے اور این سی پی میں اجیت پوار کے ذریعہ بغاوت کرائی تھی۔ جہاں ان دو اہم ریاستوں میں انڈیا اتحاد نے غضب کا مظاہرہ کیا وہیں راجستھان اور ہریانہ میں بھی اس نے متاثر کن مظاہرہ کیا اور کم و بیش آدھی سیٹیں جیت لیں۔ پنجاب میں انڈیا اتحاد میں شامل پارٹیاں کانگریس اور عام آدمی پارٹی چھا گئیں۔ لیکن بعض ریاستوں میں انڈیا اتحاد یا کانگریس ناکام رہے جن میں سب سے اہم مدھیہ پردیش ہے جہاں تمام 29 سیٹوں پر بی جے پی کامیاب رہی۔ ٹاملناڈو میں ڈی ایم کے اتحاد اور کیرالا میں یو ڈی ایف اتحاد کا دبدبہ رہا جو دونوں انڈیا اتحاد میں شامل ہیں اور  لاکھ دعوؤں کے باوجود بی جے پی جنوبی انڈیا کی ان ریاستوں میں اپنا اثر نہیں چھوڑ سکی۔ کرناٹک میں عوام کا فیصلہ ملا جلا رہا۔  یہی بات تلنگانہ کے تعلق سے کہی جاسکتی ہے جہاں بی جے پی نے عملاً چندر شیکھر راؤ کی بی آر ایس کی جگہ لے لی۔ دہلی میں مقابلہ بی جے پی کے حق میں یکطرفہ رہا۔ جھارکھنڈ میں عوام کا فیصلہ ملا جلا رہا۔ لیکن بی جے پی کانگریس اور جے ایم ایم اتحاد سے کچھ آگے رہی۔ آسام میں بھی ایسے ہی نتیجے رہے۔ 2024 ء کے لوک سبھا انتخابات کے اصل ہیروز کی بات کی جائے تو اس میں ایک اہم نام ممتا بنرجی کا ہے جنہوں نے بی جے پی کی لاکھ کوششوں، پروپگنڈہ اور پوری طاقت جھونک دینے کے باوجود زعفرانی سیلاب کو کامیابی سے روکا بلکہ 2019 ء کے انتخابات میں حاصل کئے گئے مقام سے بھی اسے نیچے ڈھکیل دیا۔ یہ انتخابات بلاشبہ نریندر مودی اور بی جے پی کے لئے ایک دھکہ ہیں۔ بی جے پی نے لوک سبھا انتخابات سے پہلے اب کی بار 400 کا نعرہ دیا تھا لیکن 400 تو دور کی بات ہے وہ 300 بھی نہیں ہوئی اور حکومت بنانے کے لئے اسے جدوجہد کا سامنا ہے۔ 2024 ء کے عوامی فیصلے نے مودی کا سحر توڑ دیا۔ اگر وہ این ڈی اے اتحادیوں کے ساتھ حکومت بنانے میں کامیاب بھی ہوتے ہیں تو وہ ایک مخلوط حکومت ہوگی جو بیساکھیوں کے سہارے پر ٹکی ہوگی اور ویسی من مانی نہیں کرسکے گی جیسی اس نے 2014 ء اور اور 20 ء کے درمیان بھاری مینڈیٹ کے زعم پر کی تھی۔

 

ایسے امکانات بھی ہیں کہ اب زعفرانی کیمپ میں مودی کی قیادت پر بھی سوال اٹھنے لگیں کیوں کہ یہ انتخابات بی جے پی اور انڈی اتحاد کے درمیان نہیں بلکہ مودی اور انڈیا اتحاد کے درمیان تھے۔ حد تو یہ ہے کہ بی جے پی کے منشور میں جو وعدے کئے گئے انہیں مودی کی گیارنٹیوں کا نام دیا گیا تھا اس طرح بی جے پی کی طاقت میں کمی کے لئے اگر کوئی ذمہ دار ہے تو وہ نریندر مودی ذمہ دار ہیں اور اس کے لئے انہیں اخلاقی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے اور یہ نتائج لازمی طورپر ان کی اخلاقی شکست ہے۔ 2024 ء کے انتخابات جو سب سے واضح پیغام دے رہے ہیں وہ یہ ہے کہ ملک میں مخلوط سیاست کا دور پھر شروع ہوگیا ہے اور یہ شاید ملک کے لئے ایک بہت اچھی بات ہے کیوں کہ گذشتہ 10 سال میں ہم نے بھاری مینڈیٹ کی نقصاندہ کارستانیوں کو دیکھا ہے۔ اب حکومت چاہے کسی کی بھی بنے لیکن کوئی من مانی نہیں کرسکے گا اور چیک اینڈ بیالنس کا نظام قائم ہوگا۔

 

انڈیا میں 1989 ء سے 2014 ء تک مخلوط حکومتوں کا دور رہا اور نرسمہا راؤ اور واجپائی نے کامیابی سے ملی جلی حکومتیں چلائیں اور اپنی میعاد مکمل کی۔

متعلقہ خبریں

Back to top button