نیشنل

حضرت مولانا غلام محمد وستانوی کا سانحہ ارتحال 

نئی دہلی ۔ بڑے ہی رنج و غم کے ساتھ یہ اطلاع دی جاتی ہے کہ خادم القرآن والمساجد، شیخ حضرت مولانا غلام محمد صاحب وستانوی کا آج بروز اتوار کچھ دیر قبل نتقال ہوگیا ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔

 

مولانا غلام محمد صاحب وستانوی کی دینی خدمات، قرآن و سنت کی ترویج اور مساجد کی خدمت کے حوالے سے ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ ان کے انتقال پر علمی، دینی اور عوامی حلقوں میں گہرے رنج و غم کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

 

ان کی عمر 75 برس تھی مولانا روایتی اسلامی تعلیم میں عصری مضامین کو شامل کرنے کی کوششوں کے لیے معروف ہیں۔ وہ اکل کوا، مہاراشٹر میں واقع جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم کے بانی و مہتمم ہیں۔ یہ ادارہ بھارت کے اقلیتی طبقے کے زیر انتظام پہلے میڈیکل کالج کی میزبانی کرتا ہے، جو میڈیکل کونسل آف انڈیا (ایم سی آئی) سے تسلیم شدہ ہے۔ مولانا وستانوی نے 2011ء میں مختصر وقت کے لیے دار العلوم دیوبند کے مہتمم کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔

 

غلام محمد وستانوی یکم جون 1950ء کو کوساڑی، ضلع سورت گجرات میں پیدا ہوئے۔ 1952ء یا 1953ء میں ان کا خاندان وستان منتقل ہوا، جس کی طرف نسبت کرتے ہوئے وہ وستانوی لکھے جاتے ہیں۔ وستانوی نے اپنی ابتدائی تعلیم مدرسہ قوت الاسلام کوساڑی میں حاصل کی، جہاں انھوں نے حفظ قرآن کیا۔

 

مولانا نے بعد ازاں مدرسہ شمس العلوم بروڈہ میں تعلیم حاصل کی اور مزید تعلیم کے لیے 1964ء میں دار العلوم فلاح دارین، ترکیسر، گجرات میں داخلہ لیا، جہاں انھوں نے آٹھ سال تک تعلیم حاصل کی اور 1972ء کے اوائل میں اپنی تعلیم مکمل کی۔ ان کے اساتذہ میں احمد بیمات، عبد اللہ کاپودروی، شیر علی افغانی اور ذو الفقار علی شامل تھے۔

 

1972ء کے اواخر میں مولانا وستانوی نے مظاہر علوم سہارنپور، اتر پردیش میں داخلہ لیا اور دورۂ حدیث شریف پڑھ کر 1973ء میں وہاں سے فراغت حاصل کی۔ انھوں نے بخاری محمد یونس جونپوری سے پڑھی۔ اس کے علاوہ انھوں نے ایم بی اے کی ڈگری بھی حاصل کی۔

 

1970ء میں دار العلوم فلاح دارین کے زمانۂ طالب علمی کے دوران انھوں نے محمد زکریا کاندھلوی سے اصلاحی تعلق قائم کیا اور 1982ء میں شیخ کی وفات تک ان سے استفادہ کرتے رہے۔ ان کی وفات کے بعد، سید صدیق احمد باندوی سے رجوع کیا اور ان کے خلیفہ و مُجاز ہوئے۔ مزید یہ کہ انھیں محمد یونس جونپوری سے بھی اجازتِ بیعت حاصل ہوئی۔

 

تعلیم سے فراغت کے بعد وستانوی نے قصبہ بوڈھان، ضلع سورت میں دس دن تدریس کے فرائض انجام دیے۔ اس کے بعد 1973ء میں وہ دار العلوم کنتھاریہ، بھروچ تشریف لے گئے، جہاں ابتدائی فارسی سے متوسطات تک کی مختلف کتابوں کی تدریس ان سے متعلق رہی۔

 

1979ء میں انھوں نے جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم، اکل کوا کی بنیاد رکھی۔ ابتدا میں یہ ادارہ محدود وسائل کے ساتھ چھ طلبہ اور ایک استاد کے ساتھ مکتب کی صورت میں قائم ہوا۔ وقت کے ساتھ یہ ادارہ ترقی کرتا گیا اور اسلامی و عصری تعلیم کے امتزاج کے باعث ایک نمایاں تعلیمی مرکز کے طور پر ابھرا۔ ادارے کے بہتر انتظام کی غرض سے وہ مستقل طور پر اکل کوا منتقل ہو گئے اور تب سے مہتمم کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔

 

یہ ادارہ ابتدائی اور اعلیٰ ثانوی اسکولوں، بیچلر آف ایجوکیشن (B.Ed.) اور ڈپلوما ان ایجوکیشن (D.Ed.) کالجوں کے ساتھ ساتھ پیشہ ورانہ تربیتی پروگرامز فراہم کرتا ہے۔ اس کے علاوہ، ادارہ انجینئرنگ، فارمیسی اور میڈیکل کالج جیسے پیشہ ورانہ کورسز بھی پیش کرتا ہے، جنھیں میڈیکل کونسل آف انڈیا سے تسلیم شدہ حیثیت حاصل ہے۔ مزید یہ کہ آئی ٹی، دفتر انتظامیہ، سلائی اور سافٹ ویئر ڈویلپمنٹ جیسے شعبوں میں بھی تربیتی مواقع فراہم کیے جاتے ہیں۔ اس جامع تعلیم کا مقصد طلبہ کو مذہبی اور عصری معاشرتی ذمہ داریوں کے لیے تیار کرنا ہے۔

 

مولانا وستانوی نے جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم کی بنیاد رکھنے اور اسے منظم کرنے کے ساتھ ساتھ بھارت کے مختلف علاقوں میں متعدد تعلیمی اور فلاحی ادارے بھی قائم کیے ہیں۔وہ ان اداروں اور ملک بھر کے دیگر اداروں کے انتظام و انصرام میں بھی فعال طور پر شامل رہے ہیں۔

 

متعلقہ خبریں

Back to top button