مضامین

مسلم خواتین کو آزادی اورامپاورمنٹ دینے والی حکومت نے بلقیس بانو کو کبھی نہ بھرنے والے زخم دے دئیے

ڈاکٹر سراج الدین ندویؔ
چیرمین ملت اکیڈمی۔بجنور
9897334419

جس وقت پورا ملک آزادی کا امرت مہوتسو منارہا تھا۔ہر طرف شہیدوں کے نعرے لگائے جارہے تھے۔ہر گھر پر ترنگا اپنی شان کے ساتھ لہرارہا تھا۔وزیر اعظم مغل حکمراں،شاہ جہاں کے ذریعے تعمیر شدہ لال قلعے کی فصیل سے خطاب کررہے تھے اور خواتین کی عظمت،عزت،حفاظت اور وقار کی بات کررہے تھے۔اسی وقت گودھرا جیل سے گیارہ مجرمین باہر آرہے تھے۔یہ کوئی معمولی مجرم نہیں تھے۔انھوں نے فساد پھیلایا تھا۔گھر جلائے تھے۔قتل عام کیا تھا۔ایک حاملہ خاتون بلقیس بانو کے تین سال کے بچے کو پٹخ کر ماردیا تھا۔یک بعد دیگرے حاملہ بلقیس بانو سے زنا بالجبر کیا تھا۔اُف کس قدر کمینہ پن تھا ان کے جرم میں۔شیطان نے بھی دانتوں تلے انگلی رکھ لی ہوگی۔زمین و آسمان کانپ گئے ہوں گے۔اُف بلقیس کی چینخیں مجھے آج بھی کانوں میں گھنٹی کی طرح بجتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ایسے گھناؤنے مجرمین کو بی جے پی حکومت نے ان کے اعلیٰ اخلاق اور کردار کی بنا پر رہائی عطا کردی تھی۔اگر اعلیٰ اخلاق کا معیار یہ ہے تو ذلالت اور کمینے پن کا معیار کیا ہوگا۔کہاں تو سوشل میڈیا پر ظل الٰہی کی شان میں کچھ نازیبا لفظ لکھ دیجیے تو قیامت آجاتی ہے۔جیلوں میں عام چور اچکے سڑ رہے ہیں۔ہزاروں لوگ ایسے ہیں جنھیں قیدیوں کو ملنے والی مراعات بھی حاصل نہیں۔ہزاروں بے گناہ قیدی بھی جیلوں میں چکی پیس رہے ہیں۔ایسے بھی سینکڑوں قیدی ہیں جن کے مقدمات بھی شروع نہیں ہوئے۔ایسے بھی ہیں جو اپنی عمر کی نوے بہاریں دیکھ چکے ہیں۔حکومت کو ان کی رہائی کی کوئی فکر نہیں ہے۔اسے تو بلقیس بانو کے زانیوں کو معافی کے ساتھ کیریکٹر سرٹیفکیٹ دینے کی فکر ہے۔
قارئین جانتے ہیں کہ گجرات کے مسلم کش فسادات کے دوران تین مارچ 2002 کو بیس سے لے کر تیس افراد پر مشتمل ایک ہجوم نے داہود ضلع کے رندھیکا پور گاؤں میں بلقیس بانو کے گھر پر حملہ کر دیا تھا۔ اس وقت وہ پانچ ماہ کی حاملہ تھیں۔ حملہ آوروں نے پہلے ان کا اجتماعی ریپ کیا تھا اور پھر ان کے خاندان کے 14 افراد کو قتل بھی کر دیا تھا، جن میں ان کی ایک تین سالہ بیٹی بھی شامل تھی۔ تب حملہ آوروں میں سے ایک شخص نے بلقیس بانو کی گود سے ان کی بیٹی چھین کر اس بچی کا سر ایک پتھر پر دے مارا تھا۔اس ہولناک واقعے اور اس پر سخت ردعمل کے بعد سپریم کورٹ نے اس کی سی بی آئی کے ذریعے انکوائری کا حکم دیا تھا۔ گیارہ ملزمان کو سن 2004 میں گرفتار کیا گیا تھا۔ متاثرہ خاتون بلقیس بانو کو قتل کی دھمکیاں ملنے کے بعد اس کیس کو گجرات سے ممبئی منتقل کر دیا گیا تھا۔ سی بی آئی کی خصوصی عدالت نے گینگ ریپ اور قتل کے الزامات میں 11 ملزمان کو مجرم قرار دیتے ہوئے سن 2008 میں انہیں عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ سن2017 میں ممبئی ہائی کورٹ نے بھی اپنے ایک فیصلے میں یہ سزا برقرار رکھی تھی۔گجرات کے ایڈیشنل چیف سیکرٹری (داخلہ) راج کمار نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے مجرموں کی طرف سے دی گئی معافی کی درخواست پر غور اس لیے کیا کہ وہ 14 برس کی سزائے قید کاٹ چکے تھے۔ اس کے علاوہ ”ان کی عمر، جرم کی نوعیت، قید کے دوران ان کے رویے وغیرہ سمیت دیگر معاملات کو بھی مدنظر رکھا گیا۔“
سوال یہ نہیں کہ ان مجرموں کی رہائی قانونی ہے یا غیر قانونی۔میں تسلیم کرتا ہوں کہ ریاستی حکومتوں کو مجرموں کی رہائی کے اختیارات حاصل ہیں۔لیکن بعض معاملے ملک کی سالمیت،سماجی ہم آہنگی اور فرقہ واریت سے جڑے ہوتے ہیں۔ان کی حساسیت اس بات کی متقاضی ہوتی ہے کہ ریاستیں اس پر اس فریق کی بھی رائے حاصل کرے جس کی وجہ سے وہ مجرم جیل گئے ہیں۔کیا حکومت نے بلقیس بانو کو معاوضہ دے کر سمجھ لیا ہے کہ اس کے زخم بھر گئے ہیں۔جس عورت کے ساتھ ایک دو نہیں گیارہ افراد نے زنا کیا ہو،جس کی معصوم بچی کو اس کی آنکھوں کے سامنے پتھر پر پٹخ کر ماردیاگیا ہو،جس کے خاندان کے 14افراد شہید کردیے گئے ہوں ذرا آنکھ بند کرکے اس کی تکلیف کو سوچیے۔یہ تو خدا کو مجرموں کی شناخت کروانا تھی،انھیں دنیا کے سامنے ذلیل کرناتھا اور سزا دلوانا تھی جو بلقیس بانو کو زندہ رکھا گیا۔ورنہ ان حادثات کے بعد کون زندہ رہ سکتاہے،بلقیس بانو کی زندگی بھی صرف ایک لاش کی صورت ہوگئی ہوگی ،مجھے بتائیے کیا اس کے ہونٹوں پر کبھی مسکراہٹ کھیلی ہوگی،عید،بقرعید اس کے لیے کیا معنیٰ رکھتی ہوں گی۔ اس کے لیے توہر دن یوم کربلا اورہر رات شب ماتم بن کر رہ گئی ہوگی۔
مجرموں کی رہائی پر ہی اکتفا نہیں کیا گیا،بلکہ ان کا استقبال کیا گیا،وشو ہندو پریشد کی جانب سے ان کی عزت افزائی کی گئی،ملک میں یہ پہلی بار ہے کہ عزت لوٹنے والوں کی عزت افزائی کی جارہی ہے،نہیں معلوم یہ کس دھرم کے سنسکار ہیں،اس گھناؤنے عمل سے عزت افزائی کرنے والوں کی ذہنیت کاندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ساری مخلوق کو ایشور کا کنبہ مانے والوں اورناری کے سمان کرنے کا دعویٰ کرنے والوں کے ذریعے مجرمین کی عزت افزائی اور ان کی گل پوشی نے بلقیس کے زخموں کو تازہ کردیا ہے۔یہ عمل مسلم نوجوانوں کو منھ چڑانے کے مترادف ہے۔ایسا کرنے والے ملک اور سماج کے دشمن ہیں۔اگر کسی وجہ سے دوسرافریق بھی اس ذہنیت پر عمل کرنے لگا تو ملک کا کیا ہوگا۔مزید یہ کہ موجودہ مرکزی حکومت نے وشو ہندو پریشد کے اس عمل کی مذمت تک نہیں کی۔۔۔ہاں مجھے یاد آیا۔۔۔۔خود مرکزی حکومت کی پارٹی اس سے پہلے مجرمین کی عزت افزائی کرچکی ہے۔مظفر نگر فساد کے کلیدی مجرم سنگیت سوم کی رہائی پر بی جے پی کے ذمہ داروں نے استقبال کیا تھا۔بھارتی سنسکرتی ہی نہیں مہذب انسانی معاشرے میں ایسا کہیں نہیں ہوتا۔
مجرمین کی رہائی سے ایک طرف جرائم میں اضافہ ہوگا۔اقلیتی طبقے کی خواتین خود کو غیر محفوظ سمجھیں گی۔ان کا قانون اور آئین پر سے اعتماد اٹھے گاتو دوسری طرف دنیا بھر میں ملک کی رسوائی ہوگی۔اس موقع پر بھی خواتین اور انسانی حقوق کی تنظیموں اور اپوزیشن سیاسی جماعتوں نے گجرات حکومت کے فیصلے پر کڑی تنقید کی ہے اور اسے عورتوں کے حوالے سے وزیر اعظم کے قول و عمل میں تضاد قرار دیا ہے۔
آخری سوال یہ ہے کہ امت مسلمہ کو کیا کرنا چاہئے؟کیا مسلم تنظیمیں اور ملی جماعتیں بلقیس کو تنہا چھوڑ دیں گی؟کیا وہ بس پریس ریلیز جاری کرکے اس کے زخموں کا مداوا کریں گی؟ظاہر ہے امت کی یہ حالت اپنے مقام و منصب کو بھولنے کی وجہ سے ہوئی ہے۔اس نے اپنی وہ ذمہ داری ادا نہیں کی جو اس پر امت محمدیہ اور حاملین قرآن ہونے کی وجہ سے ڈالی گئی تھی۔اس ذمہ داری کو ادا ن کرنے کی بنا پرہی اس کا اقتدار ختم ہوا۔اسی سبب سے اس کے حصے میں ذلت و رسوائی آئی ہے۔اس لیے سب سے پہلے امت کو اپنی غلطی کی اصلاح کرنا چاہئے۔خاص طور پر وہ لوگ جو امت کی رہنمائی کا دم بھرتے ہیں،جو منبر و محراب کی زینت ہیں یا جن کو دنیوی اقتدار میں شرکت کا موقع ملا ہوا ہے انھیں اللہ کے حضورسچے دل سے توبہ کرنا چاہئے۔واقہ یہ ہے کہ امت مسلمہ میں خود اس قدر برائیاں در آئی ہیں کہ الامان و الحفیظ۔اسی کے ساتھ ماہرین قانون سے مشورے کے بعد عدالتی کارہ جوئی کرنا چاہئے۔جمہوری نظام میں عوامی دباؤ بھی اپنی بات منوانے کا ایک ذریعہ ہے،جہاں تک ممکن ہو آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے وہ بھی کرنا چاہئے۔ان مجرمین کی رہائی غیر اخلاقی اورغیر انسانی حرکت ہے۔یہ مسلم امت کو ان کی اوقات یاد دلانے کے مساوی ہے۔مجرمین کو یاد رکھنا چاہئے کہ دنیا کی عدالت کے علاوہ بھی ایک عدالت ہے جہاں کوئی رشوت اور سفارش کام نہیں آئے گی اور مجرمین کو ان کے جرم کی پوری سزا ملے گی۔

بچ گئے ہیں عدالت سے مجرم تو کیا
موت کے بعد بھی ایک میزان ہے

مضمون نگار ماہر تعلیم،ماہنامہ اچھا ساتھی کے ایڈیٹراور سینکڑوں کتابوں کے مصنف ہیں۔

متعلقہ خبریں

Back to top button