مضامین

انسانی فکر و نظر کو تعمیری و آفاقی سمت دکھلانے والی کتابوں کے عظیم مصنف ، مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ

مولانا محمد عبدالحفیظ اسلامی

سینئر کالم نگار و آزاد صحافی۔ فون نمبر 9849099228

[email protected]

یہ بات ایک اٹل حقیقت ہے کہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری نبی ورسول ہیں اور آپؐ پرنازل کردہ کتاب قرآن حکیم اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب ہے۔ اس طرح اب قیامت تک کیلئے کوئی رسول آنے والے نہیں اور نہ ہی کوئی اور کتاب نازل ہونے والی ہے اور اللہ تعالیٰ نے دین اسلام کو ساری نوع انسانی کیلئے پسند فرماکر سرکار دوجہاں ؐ کی حیات طیبہ ہی میں مکمل فرمادیا اور نبیؐ نے اس دین کی اقامت کیلئے جدوجہد فرمائی اور اس کے ایک ایک جز کو کھول کھول کر بیان فرمایا اور اسی کے مطابق ایک فلاحی ریاست کو بھی قائم کیا اور اسی بنیادوں پر ایک صالح جماعت صحابہؓ کو تیار فرمایا اور ان سعید روحوں نے بھی نبی کریم ؐ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس دین حق کی اشاعت اور اس کی سربلندی کیلئے سارے عالم میں پھیل گئے اور نبی کریمؐ کی دعوت کو عام کیا اور اس سلسلے کو ان کے جانشین آگے بڑھاتے رہے اور خدا کے باغی لوگوں کو اس کی اطاعت و بندگی کی طرف ہر حال میں متوجہ کرتے رہے، بالخصوص برصغیر ہند میں کئی مبلغین تشریف لائے جن میں بڑے بڑے اللہ والے شامل ہیں، لیکن تجدید و احیاء دین کے حوالے سے اگر دیکھا جائے تو ان میں حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی مبارک ہستی نمایاں طور پر نظر آتی تھی۔ اس طرح حضرت نے اپنے حصہ کا کام انجام دیا اور اپنے مالک سے جاملے۔ پھر آگے دو سو سال تک حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ جیسی مجدد شخصیت کیلئے برصغیر ہند کی دھرتی ترستی رہی تھی کیونکہ یہ دور وہ دور تھا جہاں انسانیت بے چینی و بیقراری اور حالت اضطراب کی کیفیت میں مبتلا تھی اور ہر طرف باطل طاقت اور اس کے اڑدھے اپنے زہریلے پھنکار سے ساری فضا کو متاثر کررہے تھے، الحاد و دہریت مسلمانوں کو اس گندگی میں بہا لے جارہی تھی، ان حالات میں اسلام کا احساس رکھنے والے اس کی تہذیب کی فکر کرنے والے لوگ اس بات کے منتظر تھے کہ کسی ایسے بندے کو اللہ تعالیٰ اٹھائے جو اس سلسلہ میں انسانیت کی خدمت کرے اور مسلمانوں کی رہنمائی او ران کے حقیقی نصب العین کی طرف متوجہ کرے اور اللہ تعالیٰ نے ان کی پکار اور دل کی تڑپ کو دیکھا، چونکہ ان حالات کے آتے آتے 25ستمبر1903ء کی وہ گھڑی آجاتی ہے جس میں ایک مجدد کو اللہ تعالیٰ نے دکن کی سرزمین اورنگ آباد میں محترم احمد حسن صاحبؒ کے گھر پیدا فرمادیا، جن کا نام سید ابوالاعلیٰ مودودی رکھاگیا۔

 

اللہ تعالیٰ کی بنائی گئی یہ دنیا کبھی بھی اصلاح کے کام کرنے والوں سے خالی نہ رہی کیونکہ وہ ہر دور میں مصلحین کو اْٹھاتا رہا اور ان سے کام لیتا رہا ہے اور یہ اس کی سنت ہے۔ چشتی سلسلہ کی بھی بہت بڑی تاریخ ہے اور مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ علیہ کا سلسلہ بھی اسی سے جاملتا ہے، مولانا مودودیؒ اپنی خودنوشت سوانح میں تحریر فرماتے ہیں:

”میرا تعلق ایک ایسے خاندان سے ہے جس میں تیرہ سو برس تک سلسلہ ہدایت و ارشاد اور فقرو درویشی جاری رہا۔

سادات اہل بیت کی ایک شاخ تیسری صدی ہجری میں ہرات کے قریب ایک مقام پر آکر آباد ہوئی تھی جو ”چشت“ کے نام سے تمام دنیا میں مشہور ہوا۔ اس خاندان کے نامور بزرگ حضرت ابو احمد ابدال چشتیؒ (متوفی 385ھ) حضرت حسن مثنیٰ بن حضرت امام حسنؓ کی اولاد سے تھے۔

ان ہی سے صوفیاء کا مشہور سلسلہ چشتیہ جاری ہوا۔ ان کے نواسے وار جانشین حضرت ناصرالدین ابو یوسفؒ چشتی (متوفی 459ھ) سادات کی ایک دوسری شاخ سے تعلق رکھتے تھے۔ جن کا سلسلہ نسب حضرت امام علی نقیؒ کے واسطے سے امام حسینؓ تک پہنچتا ہے۔ حضرت ناصرالدین ابویوسفؒ کے فرزند اکبر حضرت خواجہ قطب الدین مودود چشتیؒ (متوفی527ھ) تھے جو تمام سلاسل چشتیہ ہند کے شیخ الشیوخ اور خاندان مودودیہ کے مورث اعلیٰ ہیں“ مولانامودودیؒ کی تعلیم و تربیت بڑی عمدہ طریقہ پر ہوئی کیونکہ ان کے والد محترم مولوی احمد حسنؒ اس سلسلہ میں بہت حساس تھے، اپنے فرزند کی بڑی باریک بینی سے تربیت فرمائی اور چاہتے تھے کہ سید مودودی بڑے عالم دین بن جائیں، اپنے فرزند میں سنجیدگی پیدا کرنے کیلئے سب سے پہلے انہوں نے زبان کی حفاظت پر زور دیا تاکہ کسی بھی طرح کے غیرسنجیدہ الفاظ ان کی زبان سے ادا نہ ہوں اور ہمیشہ اس بات کی کوشش کی جاتی رہی کہ سیدمودودی ہمیشہ نفیس اور عمدہ زبان کا استعمال کریں۔

 

مولانا محترم کے والد بزرگوار اس بات کی بھی کوشش کرتے رہے کہ اپنے بیٹے کا ذہن اسلامی نہج پرپروان چڑھے، چنانچہ اس کوشش میں رات میں سونے سے قبل انبیاء علیہم السلام کے واقعات سناتے اور اسلامی تاریخ بھی سناتے جس کے بہتر اثرات اپنی زندگی کے آخر تک سید مودودیؒ محسوس کرتے رہے۔ سید مودودیؒ کے والد محترم کو یہ فکر بھی دامن گیر تھی کہ اپنے بیٹے کو مر وجہ خراب ماحول اور فضا سے بھی بچایاجائے، اس لئے انہوں نے سید مودودی کی ابتدائی تعلیم کا نظم و بندوبست گھر پر ہی کروایا، اس سلسلہ میں خود مودودیؒ صاحب یہ بات بتلاتے ہیں کہ:

 

”نو سال کی عمر تک میں نے گھر پر پڑھا اور اس زمانے میں ’صرف و نحو‘،عربی ادب اور فقہ کی ابتدائی کتابیں پڑھ لیں“۔ (اقتباس)

 

ابتدائی تعلیم کا گھر پر خصوصی بندوبست کاانہیں اتنا فائدہ ہوا کہ جب انہیں گیارہ سال کی عمر میں مدرسہ کی آٹھویں جماعت میں داخلہ مل گیا اور اکثرمضامین میں دیگر طلبہ سے آگے ہی آگے رہے جبکہ یہ ان میں سب سے چھوٹی عمر کے طالب علم ہوتے تھے۔

حضرت مولانا ڈاکٹرابوذراصلاحی اپنے مقالے میں مولانا مودودی کے تعلیمی سفر کا خاکہ یوں پیش فرمایا:

”1335ھ (1916ء) میں سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے (بہ عمر تیرہ سال) مدرسہ فوقانیہ مشرقیہ اورنگ آباد حیدرآباد دکن سے مولوی کا امتحان پاس کیا (جو میٹرک کے مساوی تھا) اس کا نصاب یہ تھا:فقہ و فرائض- سائنس و جبرومقابلہ- انگریزی ادب- انگریزی گرامر و مضمون نگاری- انگریزی سے اردو ترجمہ- عربی سے اردو اور اردو سے عربی ترجمہ اقلیدس ومساحت- (1916ء میں سند فراغت)“۔

”22جمادی الثانی 1344ھ م 13جنوری 1926ء کو سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے 22بائیس برس کی عمر میں حضرت مولانا محمد شریف اللہ خانؒ مدرس دارالعلوم فتح پوری، دہلی سے ”علوم عقلیہ و ادبیہ و بلاغت“ اور ”علوم اصلیہ و فروعیہ“ میں سند فراغت حاصل کی“۔

1927ء:”سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے 1927ء میں حضرت مولانا اشفاق الرحمان کاندھلوی (مدرسہ عالیہ عربیہ فتح پوری، دہلی) سے حدیث، فقہ اور ادب میں سند فراغت و تدریس حاصل کی۔ (اور اسی طرح) 1928ء میں سید مودودیؒ نے مذکورہ بالا مدرسہ عالیہ عربیہ ہی سے جامع ترمذی اور موطا امام مالکؒ کی سمع و قراء ت کی تکمیل کے بعد سند فراغت حاصل کی“۔(بحوالہ وثائق مودودی)

یہاں اس بات کا ذکر بے محل نہ ہوگا کہ جن لوگوں کو مولانا مودودیؒ کے متعلق تعلیمی معلومات حاصل کرنی ہے، انہیں چاہیے کہ ایک نظر وثائق مودودی پر ڈال لیں۔

حضرت مولانا امین احسن اصلاحیؒ (مفسر قرآن ”تدبر قرآن“) نے سید مودودیؒ کی علمی قابلیت پر یوں تبصرہ فرمایاہے کہ:

”مودودی صاحب کا مرتبہ صرف اس پہلو سے اونچا نہیں ہیکہ وہ جدید تعلیم و افکار پر نہایت وسیع نگاہ رکھتے ہیں اور بلند پایہ انشاء پرداز ہیں بلکہ ان کی اصلی خوبی یہ ہے کہ وہ کتاب و سنت پر گہری نظر رکھتے ہیں، وہ صرف بیضاوی اور جلالین بقدر نصاب پڑھ کر مفسر نہیں بن بیٹھے ہیں، انہوں نے حدیث کی تمام مستند کتابوں کو حرف بحرف نہایت غوروفکرکیساتھ پڑھا ہے، صرف ان کے دورہ پراکتفا نہیں فرمایا“۔

مولانا مودودیؒ کی علمی قابلیت، مجددانہ تحریروں اور اسلامی خدمات کے سلسلہ میں عالم اسلام کے 90فیصد جید علماء کرام نے تائیدفرمائی، چنانچہ جب اسلامی خدمات کے سلسلہ میں باوقار شاہ فیصل ایوارڈ کا 1979ء میں آغاز ہوا اور اس سلسلہ میں ساری دنیا سے سفارشات طلب کی گئیں تو 90فیصد علماء کرام نے اس پہلے دئیے جانے والے عالمی ایوارڈ کو مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کو ہی حق دار ٹھہرایا اور یہ ایوارڈبہت ہی عزت و اکرام کے ساتھ مولانا مودودی کو عطا کیاگیا۔ اس طرح ساری دنیا سے مولانا مودودی بحر العلوم ہونے کی سند حاصل کرچکے ہیں۔ لیکن انہوں نے شہرت کے لئے اس کی علمی رعب کی دھاک کبھی بھی لوگوں پر نہ ڈالی۔

مولانا مودودی نے اپنی تعلیم سے فراغت کے بعد میدان صحافت میں اپنے بڑے بھائی محترم ابوالخیر مودودی صاحب کے ساتھ 1918ء میں قدم رکھا، اس طرح صحافتی میدان میں مختلف اخبارات سے منسلک رہے، آخرکار 1920ء کے اختتام پر جبل پور سے دہلی واپس آگئے کیونکہ جبل پور میں ایک سال سے زیادہ دنوں تک قیام نہ کرسکے، اس طرح پھر 1921ء کے ابتدائی زمانے میں حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت مولانا سعید صاحب رحمۃ اللہ علیہ ذمہ داران جمعیت علماء ہند سے مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کی ملاقات ہوئی اور اسی سال جمعیت علماء ہند کی طرف سے ایک اخبار ”مسلم“ نکالاگیا تھا اور اس کی ذمہ داری مولانا مودودیؒ پر ڈالی گئی اور یہ اخبار 1923ء تک مولانا مودودیؒ کی ادارت میں ہی نکلتا رہا۔

1924ء میں مولانا محمدعلی جوہر مرحوم سے ملاقات ہوئی اور وہ سید مودودیؒ کو ”ہمدرد“ میں اپنا مددگار بنانا چاہتے تھے لیکن اسی زمانے میں حضرت مولانا احمد سعید صاحبؒ جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے اخبار ”الجمعیۃ“ نکالنے کاارادہ ظاہر فرمایا تو مولانا مودودی نے ”ہمدرد“پر الجمعیۃ کو ترجیح دی کیونکہ مولانا مودودیؒ نے مولانا احمد سعید صاحبؒ سے پرانے تعلقات کو ملحوظ رکھتے ہولے الجمعیۃ کی ادارت قبول فرمالی اور اپنی ذمہ داری پر اس کو اچھی طرح چلاتے رہے، لیکن اس زمانے میں اخبار نویسی کے ساتھ ساتھ دیگر علوم کے حصول کیلئے بھی سرگرداں رہے غرضیکہ عربی لغات اور قرآن و حدیث میں سے بعض انتہائی کتابیں رہ گئیں تھیں ان کا بھی درس لیا گیا…… اس طرح آگے بڑھتے بڑھتے اور مختلف تجربات سے گزرتے ہوئے مولانا محترم کے جبل پور سے دہلی میں قیام کے دس سال پورے ہوگئے اور حالات حاضرہ پر گہری نظر نے مولانا محترم کو ایک طرح سے ملت اسلامیہ برصغیر ہند کے متعلق بہت زیادہ فکرمند کردیا۔ آخرکار 1928ء کے اختتام پر مولانا سید مودودیؒ نے ”الجمعیۃ“ کی انگریزوں اور کانگریس سے سمجھوتے کی نرم مصلحت آمیز پالیسی کی بدولت قطع تعلق کرتے ہوئے آگے کی زندگی کو تالیف وتصنیف کیلئے پسند کرتے ہوئے ماہ ستمبر 1928ء کو حیدرآباد پہنچے اور ماہ اگست تک حیدرآباد میں رہے اور اس دوران اپنا تحقیقی و قلمی کام انجام دیا جو آج تاریخ کا ایک حصہ ہے۔

(جاری)

 

 

 

متعلقہ خبریں

Back to top button