مضامین

عبدالماجد دریاآبادی: ایک منفرد ادیب اور نامورمفسر قرآن

نقی احمد ندوی
بیسویں صدی میں جن عظیم الشان ہستیوں نے ہندوستان کے اندر اپنے علم و فن کا سکہ جمایا اور اسلام کی خدمت، ان میں مولانا عبدالماجد دریا آبادی مفسر قرآن کا نام سرِ فہرست آتا ہے۔ مولانا عبدالماجد دریا آبادی ایک صاحب طرزِ ادیب، شاعر، ناقد، فلسفی، صحافی اور عالمِ دین ہونے کے ساتھ ساتھ ایک منفرد مفسر قرآن تھے۔ جن کی اردو اور انگلش تفسیر آج بھی ایک بڑے حلقہ میں مقبول ہے۔
مولانا عبدالماجد دریا آبادی نے نہ صرف یہ کہ علمی، ادبی اور اسلامی خدمات انجام دے کر امتِ اسلامیہ کی خدمت کی بلکہ آپ اپنے دور کے بہت سے مشہور اداروں، تنظیموں اور علمی و تحقیقی اداروں سے منسلک بھی رہے اور ان اداروں کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کیا، جن میں ندوۃ العلماء لکھنؤ، دارالمصنّفین شبلی اکیڈمی اعظم گڑھ، دارالعلوم دیوبند،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، دائرہ المعارف عثمانیہ حیدرآباد، انجمن ترقی اردو ہند وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔
مولانا عبدالماجد دریاآبادی 16مارچ 1892ء کو قصبہ دریا آباد، ضلع بارہ بنکی اترپردیش بھارت کے ایک علمی گھرانے ”قداوی“ خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کے دادا نے 1857ء کے خونیں انقلاب میں حصہ لیا اور اس کی سزا میں 14سال انڈمان کی کال کوٹھری میں گزارے۔ آپ کے والد کانام مولوی عبدالقادر تھا، جو ایک ڈپٹی کلکٹر تھے۔
جہاں تک مولانا کی علمی اور ادبی خدمات کا تعلق ہے، تو آپ نے صحافت کے میدان میں اس وقت سکہ جمایا جب مولانا محمد علی جوہر، مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا ظفر علی خاں اور حسرت موہانی جیسی عظیم شخصیتیں صحافت کے آسمان پر ستاروں کی مانند چمک رہی تھیں، مگر ان سب سے مولانا کا انداز جداگانہ اور تحریر یگانہ تھی۔آپ کی تحریر ایجاز و اختصار کا ایسا نمونہ ہوا کرتی تھی جس کی نقل کرنا بہت ہی مشکل تھا۔ صدق جدید کے ذریعہ آپ کی صحافتی خدمات اردو ادب کا ایک قیمتی سرمایہ ہے۔
یوں تو آپ کی تصنیفات کی تعداد ستر سے بھی زیادہ پہنچی ہیں۔ مگر قرآن، سیرت، سفرنامہ، فلسفہ اور نفسیات پر آپ کی چند مشہور تصنیفات ہیں۔ (۱) فلسفہ اجتماع(۲) تاریخ اخلاق یورپ(۳) فلسفہئ جذبات(۴) سفر حجاز(۵) ذکر رسول(۶) اکبر نامہ(۷) انشاء ماجدی(۸) حکیم الاوت، نقوش و تاثرات(۹) آپ بیتی (۰۱) تفسیر ماجدی
مولانا نے اپنی زندگی کے چالیس سال قرآن کے مطالعہ اور اس کے مطالب کے غوروخوض پر صرف کیے۔ جو آپ کا محبوب مشغلہ تھا۔ انگریزی زبان پر آپ کو عبور تھا۔ لہٰذا آپ نے انگریزی کی قرآن کا ترجمہ اور اس کی تفسیر لکھ کر اپنے وقت کی ایک اہم ترین ضرورت کو پورا کیا اس کے بعد اردو میں تفسیر ماجدی لکھی جو انگریزی کی طرح بہت مقبول ہوئی۔
آپ کا تعلق اپنے معاصرین مولانا ابوالکلام آزاد، سید سلیمان ندوی، مولانا محمد علی جوہر، اکبر الٰہ آبادی، اشرف علی تھانوی وغیرہ کے علاوہ دوسرے اپنے دور کے عظیم مصنّفین کے ساتھ بہی ہی دوستانہ اور والہانہ تھا۔
مولانا نے 6جنوری 1977کو 4بجے خاتون منزل لکھنؤ میں آخری سانس لیں اور آپ کی نمازِ جنازہ مولانا سید ابوالحسن علی ندوی نے پڑھائی، آپ اپنے آبائی وطن دریا باد میں مدفون ہوئے۔
مولانا ایک عظیم صحافی و ادیب، ناقد، عالم دین اور مفسر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک شاعر بھی تھے آپ کی نعت کا ایک مصرعہ گویا آپ کے دل کی ترجمانی کرتا ہے:
فاسق کی ہے یہ میت، یہ ہے تو تیری امت
ہاں ڈال تو دے دامن کا اپنے ذرا سایہ

متعلقہ خبریں

Back to top button