مضامین

افغان نژاد فاطمہ پیمان کی حوصلہ انگیز داستان

اسد الرحمن تیمی

دنیا میں ایسے کئی بدحال ممالک ہیں جہاں کے باشندوں کی دردناک کہانیاں سن کر ہمارے دلوں میں ایک عجیب و غریب کیفیت پیدا ہو جاتی ہے ہم افسوس اور بے بسی کےعالم میں پہنچ جاتے ہیں مگر انہی غمزدہ لوگوں کے بیچ سے اچانک ایسی داستان ابھر کر سامنے آتی ہے جو ہمیں تعجب میں ڈالتی ہی نہیں بلکہ یہ یقین دلاتی ہے کہ نہیں! ابھی کچھ ختم نہیں ہوا ہے۔ فاطمہ پیمان کی کہانی ایسی ہی ہے. وہ بھلے آسٹریلیا کی باشندہ ہے مگر انہوں نے لاکھوں افغانی عورتوں کا سر فخر سے اونچا کرنے کے ساتھ ساتھ کروڑوں پناہ گزین لوگوں کو مثالی اور حوصلہ بخش زندگی جینے کی سبق دی ہے

فاطمہ پیمان 1995ء میں کابل کے ایک خوشحال خاندان میں پیدا ہوئیں۔ ان کے دادا افغانی پارلیمنٹ کے رکن تھے۔ یہ وہ دور تھا جب افغانستان میں طالبان کی پکڑ مضبوط ہو گئی تھی اور الگ الگ علاقوں میں لوگوں پر طرح طرح کی پابندیاں عائد کی جا رہی تھیں ۔ فاطمہ کا خاندان بھی طالبان کے نشانے پر تھا ایک طرف ملک سال در سال قحط سالی دوچار تھا دوسری طرف صدر جمہوریہ نجیب اللہ کو سرعام پھانسی پر لٹکانے کے بعد طالبان آگے بڑھ چکے تھے۔ آخر کار سال 1999 ء میں فاطمہ کے والد عبدالوکیل پیمان گھر والوں کے ساتھ بھاگ کر پاکستان آگئے اس وقت قریب 10لاکھ افغانی وطن چھوڑنے کو مجبور ہوئے تھے وہ بھاگ تو آئے تھے مگر ان کی ساری آسائشیں کابل میں ہی رہ گئے تھیں ظاہر ہے امارت پر اچانک غربت حاوی چکی تھی۔ یہ غربت بہت اذیت دے رہی تھی عبدالوکیل یہ بھی بخوبی جانتے تھے کی پاکستان میں انہیں اور ان کے بچوں کو ہمیشہ دوم درجہ کی زندگی جینی پڑے گی وہ کافی بے چین تھے اسی بے چینی کی حالت میں ایک دن وہ اسی کشتی پر بیٹھ گئے جو آسٹریلیا کی طرف جا رہی تھی

فاطمہ اور ان کے بھائی بہنوں کو تب تک احساس تک بھی نہ تھا کی ان سے کیا کچھ چھن گیا ہے انہوں نے پاکستانی احسان اور حقارت کے بیچ ہی ہوش سنبھالا ، بہر حال فاطمہ کے والد عبدالوکیل نے آسٹریلیا میں پناہ گزینوں کے کیمپ میں وقت گزارنے کے بعد وہاں کی سرکار سے پناہ مانگی جس کے منظور ہوتے ہی پیمان خاندان پاکستان چھوڑ کر پرتھ آگیا

آٹھ سال کی فاطمہ بھائی بہنوں میں سب سے بڑی تھی وہ والد کی جدو جہد ، ان کےاندیشوں کو سمجھنے لگی تھی فاطمہ کے والد نے امور خانہ داری میں معاون ، ٹیکسی ڈرائیور سے لیکر سیکورٹی گارڈ تک کی نوکری کی ، تاکہ اپنے اہل خانہ اور بچوں کے لئے کچھ پیسہ جٹا سکیں ، فاطمہ کی ماں نے بھی ڈرائیونگ سکھانے کا چھوٹا کاروبار شروع کر دیا تھا محنت کشوں کا وہ ماحول فاطمہ کے اندر کچی عمر سے ہی محنت کے لئے بہت زیادہ دلچسپی پیدا کرتا گیا فاطمہ پڑھنے لکھنے میں بہت اچھی تھی اس کی وجہ سے اسکول کالجوں میں اسلامک کالج کی وہ ” ہیڈ گرل ” چن لی گئی والد اس دن بہت خوش ہوئے تھے پر اس خوشی نے دبی ہوئی ایک چاہت کو ابھار دیا تھا

اب وہ افغانی سیاست کی باتیں کرنے لگے تھے اکثر رات میں کھانے کے میز پر وہ دعاء کرتے کہ کاش ! افغانستان کی حالت سدھر جائے اور وہاں امن و امان قائم ہو جاتا تو تم اپنے علاقے سے چناؤ لڑ کر ملک کی خدمت کرتی۔ تب ان کے گمان میں دور دور تک یہ نہیں آیا ہوگا کی ان کی بیٹی آسٹریلیا میں بھی قیادت کر سکتی ہے

باپ کی دلی چاہت فاطمہ کے دل میں گھر کر گئی سال 2018 میں کینسر سے ان کی موت نے فاطمہ کو سیاست کے متعلق زیادہ سنجیدہ کر دیا وہ ایک جماعت سے جڑگءی اس کے بعد انہوں نے دیکھا کہ اچھی تنخواہ اور بہتر خدمت کے لئے لڑنے کی خاطر کافی وسائل ہیں پر شاید وہ مقام و مرتبہ حاصل نہیں تھا، فاطمہ کی آنکھوں کے سامنے اپنے باپ کی مشکل دن گھوم گئے جب وہ کئی کئی مراحل میں کام کیا کرتے تھے انہوں محنت کشوں کی حمایت کا فیصلہ کیا فاطمہ ” فاطمہ آسٹریلیا لیبر پارٹی ” کی نوجوان اکائی ” ینگ لیبر ” سے جڑ گئی اوریہ ان کی قابلیت اور صلاحیت کا ہی نتیجہ تھا کی جلد ہی انہیں نوجوان اکاءی کا صدر چن لیا گیا

سال 2005 میں آسٹریلیا کی شہریت لینے والی فاطمہ اکلوتی لڑکی ہے جسےلیبر پارٹی کے ٹکٹ پر ابھی پارلیمنٹ کا رکن چنا گیا ہے جون میں جب وہاں کے چناؤ آفیسر نے رزلٹ بٹن دبایا تب فاطمہ اور انکے گھر والے کے لیے آنکھیں نم کرنے والا لحمہ تھا انکی ماں نے چھلکتی آنکھوں کے ساتھ اتنا ہی کہا ” تم نےاپنے والد کا خواب پورا کر دیا ” وہ جہاں کہیں بھی ہونگے بہت خوش ہونگے انہیں تم پر فخر ہوا ہوگا

فاطمہ آسٹریلیا کی تاریخ میں وہ تیسری سب سے نوجوان رکن پارلیمنٹ ہے اس وقت فاطمہ کے نام کے ساتھ ایک اور انقلاب جڑ رہا ہے کہ وہ آسٹریلیاءی پارلیمنٹ کی پہلی رکن ہیں جو حجاب پہنتی ہے یقینا اس سے آسٹریلیاءی پارلیمنٹ کی خوبصورتی بڑھے گی بقول فاطمہ ایک افغان،مہاجریا مسلمان سے پہلے میں آسٹریلیا کی لیبر پارٹی کی ایک ممبر پارلیمنٹ ہوں اور میرا ماننا ہے کی ہر انسان کو زندگی میں آگے بڑھنے کا مناسب موقع ملنا چاہیے ” چاہے وہ کہیں سے آیا ہو ” اس کا کوئی بھی مذہب ہو یا پھر مرد ہو عورت ،”. طالبان کا جواب فاطمہ جیسی افغانی بیٹیاں ہی ہو سکتی ہیں.

 

متعلقہ خبریں

Back to top button