مضامین

فقہی مکاتب فکر کے بانی امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ(80-150ھ )

أسد الرحمن تیمی
صحابی جلیل عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ خلیفہ المسلمین  عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانے میں کوفہ تشریف لائے اور وہاں لوگوں کو دینی تعلیم دینا شروع کر دیا۔ابن مسعود رضی اللہ عنہ  علم کے سمندر تھے،  لہٰذا طلبہ کی ایک بڑی تعداد  علمی تشنگی بجھانے کے لئے ان کے  گرد اکٹھا ہو گیی ۔ مذہبی مسائل کے حل کا ان کا طریقہ یہ تھا کہ جہاں قرآن وحدیث کے نصوص نہ ہوں  خود سے اجتہاد کرتے اور حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم  کو لینے میں درجہ احتیاط سے کام لیتے ۔
 ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے فکر و نظر سے فیض اٹھانے والی جماعت میں ابراہیم بن یزید النخعی، ایک بلند پایہ عالم اور سرزمین عراق کے سب سے بڑے فقیہ گذرے ہیں،انہیں علوم حدیث کی بھی بڑی گہری جانکاری تھی۔ وہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کے براہ راست شاگرد نہیں تھے بلکہ ان کے تلامذہ سے پڑھا تھا۔
امام نخعی کے ممتاز شاگردحماد بن ابو سلیمان ہیں، جو اپنے استاذ کےعلمی ورثے کے حقیقی وارث  اور امام مجتہد تھے،ان کا حلقۂ درس بہت بڑا تھا،امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ انہیں حماد بن سلیمان کے  حلقہ درس کی ایک سنہری کڑی ہیں۔جنہوں نے اپنی فقہی بصیرت اور علوم اسلامیہ پر اپنی مضبوط گرفت کے معاملے میں اپنےتمام  ساتھیوں کو پیچھے چھوڑ دیا اور   ایسی صلاحیت اپنے  اندر پیدا کی کہ آسمان علم ودانش کا ایک آفتاب بن گءے،آج  ساڑھے بارہ صدیاں بعد بھی  اس کی روشنی باقی ہے۔ انہیں  فقہی مکاتب فکر کےبانی اور امام اعظم  کے طورپر بھی جانا جاتا ہے۔  ۔ان کی طرف منسوب حنفی مسلک کو امتیاز حاصل ہے کہ وہ تاریخ اسلام کی بڑی بڑی حکومتوں مثلاً سلطنت عباسیہ،  عثمانیہ سلجوقیہ ،اور غزنویہ سلطنت میں آءین کی حیثیت سے رہا۔آج بھی عالم اسلام کے بیشتر خطوں یہی مسلک رایج ہے۔
ابو حنیفہ کا اصل نام نعمان بن ثابت بن نعمان ہے۔ ان کی پیدائش سن 80 ہ بمطابق699م میں عراق کے کوفہ شہر میں ہوئی،جو اس وقت علم اور علماء کا مرکز تھا۔وہاں حدیث، فقہ، قراءت، لغت اور دیگر علوم کے متعدد علمی حلقے تھے۔مسجدیں علماء اور مشائخ سے بھری ہوئی تھیں۔ابو حنیفہ نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ اسی شہر میں گزارا، کبھی طالب علم  کی حیثیت سے تو  کبھی استاذ کے طور پر۔بچپن میں حفظ  قرآن کے بعد وہ کوفہ کے علمی حلقوں میں شریک ہوا کرتے تھے،لیکن پھر وہ اپنے والد کے ساتھ  تجارت کے پیشہ جڑ گئے۔ایک بار ان کی ملاقات کوفہ کے مشہور فقیہ عامر الشعبی سے ہوئی،وہ ابوحنیفہ کی ذہانت اور قوت استدلال سے بے حد متاثر ہوئے۔ اور ابوحنیفہ کو از سرنو حصولِ علم میں لگ جانے کا مشورہ دیا،ابوحنیفہ نے ان کی بات مانی  اور ایک نئے جوش کے ساتھ تعلیمی سلسلہ شروع کر دیا،اور بہت جلد حدیث،فقہ لغت،  علم الکلام  اور مناظرہ جیسے مروجہ علوم میں مہارت حاصل کر لی۔فقہ میں ان کے استاد حماد بن ابو سلیمان تھے جن کی صحبت میں وہ اٹھارہ سال کی لمبی مدت تک رہے۔
ابو حنیفہ کا بکثرت حج کیا کرتے تھے۔کہا جاتا ہے کہ انہوں نے 55 بار حج کیاتھا۔ جس کی وجہ سے مکہ میں انہیں بڑے بڑے فقہاء اور تابعین سے ملاقات بات کا موقع ملا۔جن بڑے تابعین  سے ابوحنیفہ مستفید ہوءے، ان میں عامرالشعبی،عکرمہ مولی ابن عباس،اور نافع مولی ابن عمر کے نام نمایاں ہیں۔کچھ مورخین کے مطابق ابو حنیفہ کے اساتذہ کی تعداد تقریبا 4000 تک پہنچتی ہے۔بعض روایات سے معلوم پڑتا ہے کہ ان کی ملاقات کچھ ان صحابہء کرام سے بھی ہوءی جو جو پہلی صدی ہجری کے خاتمے تک زندہ تھے۔اس طرح وہتابعین کے رتبہء بلند پر فائز نظر آتے ہیں۔البتہ تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ  انہوں نےکسی بھی صحابی سے کوئی  حدیثروایت نہیں کی ہے۔
حلقۂ فقہ کی ریاست:
حماد بن ابو سلیمان کے انتقال کے بعد کوفہ میں  ان کے حلقۂ درس کی ذمہ داری امام ابوحنیفہ نے سنبھالی۔اب ان کی فقہی بصیرت کا شہرہ دور دور تک پھیل چکا تھا۔انہوں نے شرعی مسائل کے حل کا ایک نیا طریقہ ایجاد کیا۔وو کسی بھی فتوے کا جواب ازخود نہیں دیتے تھے،بلکہ اپنے شاگردوں کو اس کا جواب تیار کرنے اور کھل کر اپنی رائے پیش کرنے کو کہتے،ہر ایک کے جواب کا باریکی سےجائزہ لیتے اس طرح  وہ  اور ان کے تمام تلامذہ ایک متفقہ جواب تک پہنچ جاتے۔
ابو حنیفہ اپنے شاگردوں کا خاص خیال رکھتے تھے۔ان کی مالی مدد بھی کرتے تھے تاکہ وہ تعلیم چھوڑ کر کسی دوسرے ارے مشغلہ میں نہ جائیں۔
امام ابو یوسف خود اس کا اعتراف کرتے ہوئے کہتے ہیں "امام ابوحنیفہ نے بیس سالوں تک میری اور میرے اہل و عیال کی کفالت کی”.
ابو حنیفہ تعلیم کے ساتھ تجارت بھی کرتے تھے۔کوفہ میں ریشمی کپڑوں  کا ان کی ایک دکان تھی جسے ان کا کاروباری شراکت دار سنبھالتا تھا اور وہ خود پوری فراغت کے ساتھ  فقہی خدمات انجام دیتے تھے۔
حنفی مکتبہ فکر کا بنیادی اصول:
ابو حنیفہ نے جس فقہی مسلک کی بنیاد ڈالی، اس کا بنیادی ضابطہ بیان کرتے ہوئے خود کہتے ہیں:” میں کسی بھی شرعی مسلۓ کا حل  قرآن مجید میں ڈھونڈتا ہوں، اگر وہاں مل گیا تو ٹھیک ورنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سنت میں تلاشتا ہوں اگر وہاں بھی نہ ملے تو جس صحابی کا قول  چاہتا ہوں لے لیتا ہوں اور جس کا چاہتا ہوں چھوڑ دیتا ہوں۔لیکن اگر کسی صحابی کا بھی قول نہیں ملے  تو پھر میں خود اجتہاد کرتا ہوں۔
آپ نے اس فقہی  نطریے میں ابوحنیفہ دوسرے اماموں سے الگ نہیں ہیں۔تمام ائمہ کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ دینی وشزعی مسءلوں کا حل سب سے پہلے قرآن وحدیث میں ڈھونڈا جائے گا۔لیکن ابوحنیفہ اور دوسرے اماموں میں فرق صرف اتنا ہے کہ ابوحنیفہ کے طریقۂ اجتہاد میں محض نصوص کی ظاہری شکل نہیں دیکھی جاتی بلکہ ان کے معنیٰ مطلب اور اس  مقصد پر بھی خوب ہو فکر کیا جاتا ہے جس کی طرف یہ نصوص اشارہ کرتے ہیں۔لیکن عقل اور قیاس کے استعمال میں امام ابو حنیفہ کی شہرت کا یہ قطعا مطلب نہیں کہ وہ احادیث پر توجہ نہیں دیتے تھے یا علم حدیث کی انہیں کم جانکاری تھی، بلکہ بات دراصل یہ ہے کہ وہ کوئی بھی حدیث قبول کر نے میں حد درجہ احتیاط سے کام لیتے تھے۔کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف  حدیث کی نسبت  کی صحت کو یقینی بنایا جاسکے۔ قبول حدیث کے لیے ان کےکڑی شرائط نے ہی انہیں صحیح احادیث کی تشریح  میں وسعت سے کام لینے اور نئے مسائل کو انہی پر قیاس کرنے پر آمادہ کیا۔
تلامذہ:
فقہ حنفی کی نشر و اشاعت اور عروج و ارتقاء میں امام ابوحنیفہ کے قابل ومخلص شاگردوں نے زبردست خدمات انجام دی ہیں۔انہوں نے اپنے استاذ کی زیادہ تر باتوں کو یاد رکھا،ان کے فقہی نظریات کو مرتب کیا اور حکومت کے ذریعہ اسےقانونی حیثیت سے بھی دلاءی۔ ان باکمال شاگردوں میں ابویوسف، محمد بن الحسن الشیبانی اور زفر قابل ذکر ہیں۔ ابویوسف کا اصل نام یعقوب بن ابراہیم ہے۔ انہوں نے ہی سب سے پہلے فقہ حنفی کو ترتیب دینے کا کام انجام دیا۔ کتاب الخراج، الآثار اور کتاب اختلاف ابی حنیفۃ بابن ابی لیلہ وغیرہ کتابیں دستیاب ہیں۔
امام ابوحنیفہ کے دوسرے سب سے اہم شاگرد  امام محمد بن الحسن الشیبانی ہیں۔ جنہوں نے گرچہ امام ابو حنیفہ سے  تھوڑی مدت تک تعلیم حاصل کی، لیکن فقہ حنفی کی تدوین اور استحکام میں ان کی خدمات سب سے زیادہ ہیں، ان کے اہم اساتذہ میں  امام ابو حنیفہ کے شاگرد   ابو یوسف ،  اوزاعی ، ثوری اور امام مالک ہیں۔محمد بن الحسن الشیبانی نے بہت ساری کتابیں تصنیف کیں ان کی مؤطا مشہور ہے۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اپنے وقت کی سیاسی تحریکوں سے الگ تھلگ رہنے والے علماء میں سے نہیں تھے،بلکہ وہ حزب اختلاف کی متعدد تحریکوں کے فکری رہنما  یا کم از کم اس تحریک میں شریک ضرور تھے، چنانچہ جب اموی حکومت میں حضرت زید بن علی علی زین العابدین نےانقلاب کا جھنڈا بلند کیا تو ابو حنیفہ اس انقلابی تحریک کے اہم رہنماؤں میں سے رہے۔اور جب یہ تحریک ناکام ہوگئی اور حکومت نے  اس سے جڑے افراد کے خلاف  ظالمانہ کاروائیاں شروع کردیں د تو امام ابوحنیفہ نے اپنا رخت سفر مکہ کے لئے باندھ لیا م اس وقت تک  وہاں رہے جب تک کے عباسیوں کی  مضبوط حکومت نہیں قائم ہوگءی۔امام ابو حنیفہ کے بقول "زید بن علی  امام عادل تھے,  حکومت کے خلاف  ان کی بغاوت  بدر کے لئے اللہ کے رسول کے خروج جیسی تھی”۔
اسی طرح جب امام محمد بن عبداللہ نفس زکیہ نے عباسی حکومت کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ بھی اس کے حامیوں میں شامل تھے،
حکومت کے ساتھ ابوحنیفہ کی کشمکش جاری رہی جب انہیں حکومت کی طرف سے منصب قضا کی ذمہ داری سنبھالنے کو کہا گیا تو انہوں نے سختی کے ساتھ اسے لینے سے منع کردیا، لیکن حکومت بھی کہاں ماننے والی تھی، اس نے امام ابوحنیفہ کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا۔
اپنی زندگی کی 70 بہاریں دیکھنے کے بعد سن 150ه 767م میں امام ابو حنیفہ نے داعیء اجل کو لبیک کہا۔بڑے بڑے علماء اسلام نے امام ابوحنیفہ کی علمی عظمت کا اعتراف کیا ہے۔امام شافعی فرماتے ہیں کہ کہ "لوگ فقہ میں امام ابوحنیفہ سے بے نیاز نہیں ہو سکتے”۔
امام ابو حنیفہ ایک بے حد متقی و پرہیزگار انسان تھے۔روزمرہ کی اوقات کا بڑا حصہ عبادات میں صرف کرتے۔نوافل کے اہتمام کے تعلق سے ان کے بارے میں بہت ساری روایات ملتی ہیں ۔
اللہ تعالی نے امام ابو حنیفہ کے فقہی نقطہ نظر کو زبردست مقبولیت  عطا کی، اور آج ان کی وفات پر بارہ صدیاں گذرنے کے بعد بھی دنیا کے سنی مسلمانوں کی سب سے بڑی تعداد حنفی فقہ کی پیروکار ہے۔

متعلقہ خبریں

Back to top button