نیشنل

آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ کے صدر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب کی مسلمانان ہند کے نام ایک دردمندانہ اپیل

نئی دہلی: 20؍جون ( پریس نوٹ) آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ کے صدر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب نے مسلمانان ہند کے نام آج ایک دردمندانہ اپیل جاری کرتے ہوئے فرمایا کہ "ایک مسلمان جسے نماز، روزہ اور حج وزکوٰۃ کے مسائل میں شریعت کے احکام پر عمل کرنے کا پابند ہے، اسی طرح معاشرتی مسائل —نکاح وطلاق، خلع، عدت، میراث، ولایت وحضانت وغیرہ— میں بھی شریعت کے حکم پر قائم رہنا ہر مسلمان پر واجب ہے، ان امور سے متعلق بیشتر احکام براہ راست قرآن وحدیث سے ثابت ہیں اور فقہاء کے درمیان متفق علیہ ہیں؛ اس لئے ان احکام کو دین میں بنیادی اہمیت حاصل ہے۔

 

حکومت کے سامنے یونیفارم سول کوڈ کا جو مجوزہ خاکہ ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ بہت سے امور میں شریعت کے عائلی قانون سے متصادم ہوگا؛ اس لئے مسلمانوں کے لئے دینی نقطۂ نظر سے یہ قطعاََ ناقابل قبول ہے، اس کے علاوہ یہ ملک کے مفاد میں بھی نہیں ہے؛ کیوں کہ ہندوستان مختلف مذاہب اور مختلف تہذیبوں کا ایک گلدستہ ہے، اور یہی تنوع اس کی خوبصورتی ہے، اگر اس تنوع کو ختم کیا گیا اور ان پر ایک ہی قانون مسلط کر دیا گیا تو اندیشہ ہے کہ اس سے قومی یکجہتی متأثر ہوگی، یہ بات بھی بڑی اہم ہے کہ حکومت نے مختلف علیحدگی پسند قبائل کو اسی وعدہ پر قومی دھارے میں شامل کیا ہے کہ اُن کے رواجی قانون کو متأثر نہیں کیا جائے گا، یونیفارم سول کوڈ سے اس معاہدہ کی خلاف ورزی ہوگی؛ اس لئے پرسنل لا کے سلسلہ میں مختلف گروہوں کے نقطۂ نظر کی رعایت کرنا ضروری ہے اور یہی دستور کی روح ہے۔

 

لا کمیشن آف انڈیا نے کچھ سالوں پہلے یونیفارم سول کوڈ کے لئے ایک سوالنامہ جاری کیا تھا، بورڈ نے اس کا تفصیلی جواب بھی داخل کیا اور بورڈ کے وفد نے کمیشن کے چیئرمین سے ملاقات کر کے بالمشافہ بھی اپنا نقطۂ نظر رکھا اور انھوں نے ایک حد تک بورڈ کے موقف کی تحسین بھی کی، اب دوبارہ مؤرخہ: 14؍ جون 2023ء کو لا کمیشن آف انڈیا نے اپنی ویب سائٹ پر اس سے متعلق سوالنامہ جاری کیا ہےاور جماعتوں اور افراد سے خواہش کی ہے کہ وہ اس کے بارے میں ایک ماہ کے اندر یعنی 14؍ جولائی 2023ء تک اپنا نقطۂ نظر داخل کریں،

 

اس پس منظر میں بورڈ ماہر وکلاء اور قانون دانوں کے مشورے سے ایک مختصر اور جامع ڈرافٹ بنیادی جواب کے لئے تیار کر رہا ہے، اسی کے مطابق مختلف افراد اور تنظیموں کی طرف سے جواب دینا مناسب ہوگا، اس کے علاوہ ایک تفصیلی ڈرافٹ (جس میں مجوزہ قانون کے تمام پہلوؤں کی وضاحت ہوگی) کو بعد میں لا کمیشن کے سپرد کیا جائے گا۔

 

بورڈ ہمیشہ سے اس مسئلہ میں چوکس اور باخبر رہا ہے، یونیفارم سول کوڈ کے لئے اس کی مستقل کمیٹی ہے، اس نے ماہر وکلاء کا ایک پینل تشکیل دیا ہے، مختلف غیر مسلم اقلیتی نمائندوں ، اپوزیشن لیڈروں اور دلتوں سے ملاقات کر کے اس مسئلہ میں بورڈ کے نقطۂ نظر کی تائید وحمایت حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، اور الحمدللہ اس میں کامیابی بھی حاصل ہو رہی ہے۔

 

اس پس منظر میں تمام مسلم تنظیموں سے، مختلف پیشوں سے جڑے ہوئے افراد، جیسے اساتذہ، ڈاکٹرس، وکلاء، سماجی کارکنان، مذہبی رہنماؤں اور خاص طور پر خواتین اور چھوٹی بڑی مذہبی اور ملی تنظیموں سے اپیل ہے کہ وہ بورڈ کی ہدایت آنے کے بعد اس کے مطابق زیادہ سے زیادہ تعداد میں لا کمیشن آف انڈیا کی ویب سائٹ پر جا کر یونیفارم سول کوڈ کے خلاف اپنا اعتراض داخل کریں اور برادران وطن کو بھی اس پر آمادہ کریں اور انہیں سمجھائیں کہ یہ صرف مسلمانوں کا مسئلہ نہیں ہے؛ بلکہ تمام طبقات اس سے متأثر ہوں گے، نیز دعاء کا بھی خوب اہتمام کریں کہ اس ملک میں مسلمانوں کو اپنے مذہب پر عمل کی جو آزادی دستوری طور پر حاصل ہے، وہ برقرار رہے، بورڈ اطمینان دلاتا ہے کہ وہ ہر سطح پر یونیفارم سول کوڈ کو روکنے کی پوری کوشش کرے گا،

 

اس کے لئے تمام پُر امن ممکنہ وسائل کا استعمال کرے گا اور وہ پوری ملت اسلامیہ ہند سے امید رکھتا ہے کہ بورڈ جب بھی اس سلسلہ میں کوئی آواز دے گا، سب کے سب اس پر لبیک کہیں گے، اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی ومددگار ہو”۔

متعلقہ خبریں

Back to top button