مضامین

آج کل کے جلسے مفید یا مضر

مفتی محمد آصف اقبال قاسمی

جلسوں، کانفرنسوں اور سیمیناروں کی مثال زمانہ قدیم سے موجودہے ان جلسوں میں بڑے بڑے علمائے کرام،دانشوران ملک وملت اور بزرگان دین کی شرکت پہلے بھی ہواکرتی تھی اور آج بھی ہورہی ہے۔ لیکن پہلے کے جلسوں او رآج کے جلسوں میں نمایا فرق محسوس ہوتاہے۔پہلے جلسے تو گاہے گاہے ہواکرتے تھے لیکن آج کل مدارس اور خاص کر چھوٹے چھوٹے مدارس جو اپنی پہچان بنانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ ہر سال جلسہ کرنا مدارس کا اہم فریضہ سمجھتے ہیں۔اس کے لئے عنوان کہیں دستار بندی حفاظ وفضلائے کرام، کہیں جشن تکمیل قرآن کریم، کہیں، جشن ختم بخاری شریف، کہیں سالانہ اجلاس عام وغیرہ اختیار کیا جاتاہے۔

ملک کے کونے کونے سے بلکہ بعض لوگ بیرون ملک سے بھی مقررین اور شعرا کو بلاتے ہیں اور ان کے آنے جانے اور ھدیہ نذرانہ کا بوجھ قومی چندہ پر رکھ کر نہایت عظیم الشان اجلاس عام کیاجاتاہے۔آج کل لوگوں کا مزاج بن گیا ہے کہ علاقائی علماء وشعرا کے نام پر جمع نہیں ہوتے۔ ہاں اگر شاعری کی دنیا کا کوئی بڑا نام ہو کوئی مشہور نعت خواں ہو تو بھیڑ اس قدر جمع ہوجاتی ہے کہ ان کو سنبھالنا منتظمین اجلاس کے لئے مشکل ہوجاتاہے۔نعت گوئی ایک ایسا فن ہے جس کے بارے میں کہا جاتاہے کہ یہ بال سے زیادہ باریک اور تلوار سے زیادہ تیز ہے۔اس لئے کہ ایک طرف تو عظمت رسول ہے اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی کبریائی اور اس کے متعینہ حدود ہیں۔ اگر عظمت رسول میں ذرا سی کمی ہوئی تو بھی ایمان کاخطرہ ہے اور اگر زیادتی اتنی ہوجائے کہ اللہ کی کبریائی کی حد میں داخل ہوگئی تو بھی ایمان کاخطرہ رہتاہے اسی لئے بڑے بڑے شعراء کرام نے اس میں یا تو قدم ہی نہیں رکھا اور اگر کبھی کوشش کی بھی ہے تو زیادہ دور تک نہیں چل سکے ہیں۔ بڑے بڑے شعرائے کرام کے دواوین دیکھیں انہوں نے صرف تبرکاً ایک دو نعتیں لکھ دی ہیں باقی پوری دیوان۔غزلیات، رباعیات، مثنویات اور نغمات سے بھری ہوتی ہے۔یہ تو بات ہوئی نعت لکھنے کی لیکن پڑھنے کے لئے بھی ان لوازمات کا ہوناضروری ہے۔ اس لئے کہ نعت گوئی رسول اللہ ﷺ کی ثنا خوانی ہوتی ہے اور ثناخوانی میں ادب و تعظیم کا خیال رکھنا نہایت ضروری ہوتا ہے۔مروجہ دور میں جلسوں میں نعت خوانی کا جو طریقہ ہے اس میں تعظیم رسول بالکل بھی نہیں پائی جاتی۔ شعرا کامقصد کسی بھی طرح سامعین سے داد وتحسین وصول کرنا ہوتاہے اس کے لئے وہ مختلف قسم کے حربے استعمال کرتے ہیں۔ سامعین کے جذبات کو ابھارتے ہیں۔زبردستی ہاتھ اٹھواکر سبحان اللہ اور تکبیر کے نعرے لگواتے ہیں ایسے ایسے جملے استعمال کرتے ہیں کے سننے والا مجبورا ہاتھ اٹھاکر ہی رہے گا۔جیسے جسے رسول اللہ سے محبت ہو وہ ہاتھ اٹھائے، جسے اپنی ماں سے محبت ہو وہ ہاتھ اٹھائے۔اب جس مصرعے پر شاعر کو داد مل جاتی ہے اس کو وہ بار بار پڑھ کر سامعین سے انعام کی صورت میں رقم وصول کرنے کی فکر میں لگ جاتاہے اور بعضے تو لوگو ں کہ کہتے بھی ہیں کہ اپنی سخاوت کی مثال پیش کرکے حب رسول کی دلیل پیش کیجئے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ آج کا نوجوان فلمی گانوں کا دیوانہ ہوگیا ہے اس لئے جب کو ئی شاعر کوئی ایسی نعت پڑھتا ہے جس کاطرز کسی فلمی گانے سے ملتا جلتاہے تو پورا کا پور امجمع جھوم جاتاہے اور پھر شاعر دادو تحسین حاصل کرنے کے لئے ایک ہی مصرع کو بار بار پڑھتاہے نتیجتا پورا کا پور اجلسہ عوام کے ہاتھوں میں چلا جاتاہے جب تک شاعر اسٹیج پر موجود ہے جلسہ گاہ بھری ہوتی ہے اور جیسے ہی کوئی مقرر رونق اسٹیج ہوا پورا مجمع باہرنکل جاتاہے اور چائے خانوں میں جاکر بیٹھ جاتاہے۔اوپر سے بد قسمتی یہ ہے کہ شعرا کے لئے تو وقت کی کوئی پابندی نہیں اور مقررین کومختصر سا وقت دیا جاتاہے آخر اس کا مقصد کیا ہے اگر مقصد صرف اشعار کالطف اٹھانا ہے تو اس کے لئے جلسہ کے بجائے مشاعرے کا لفظ استعمال کرنا زیادہ بہتر ہے۔ شعرا ئے کرام کو اس بات کا خیال بہرحال رکھناہوگا کہ نعت خوانی اور غزل خوانی میں فرق ہوتاہے۔

نعت خواں کے تصور میں رسول اللہ ﷺ کی ذات اقدس ہوتی ہے اورپھر اسی تصور کے ساتھ سرور کائنات کی شان عقیدت میں اپنا کلام پیش کرتاہے اس کے لئے مؤدب اور باوقار ہونا نہایت لازمی شیئ ہے ورنہ تعظیم رسول کے بجائے توہین رسول ثابت ہوجائے گی۔ دوسری طرف مقررین کی صورت حال یہ ہے کہ عوام الناس کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئےقرآنی آیات واحادیث اور اقوال صحابہ وتابعین اور سیرت رسول وصحابہ کے واقعات کے بجائے من گھرٹ قصے کہانیاں جو ان کی اپنی گھڑی ہوئی ہوتی ہیں جس میں کچھ مزاحیہ جملے بھی ہوتے اور سامعین کو لبھانے کے لئے قصے میں عجیب لچک بھی ہوتی ہے بیان کرتے ہیں اور اگر پھر بھی لوگوں کی توجہ حاصل نہیں ہوئی تو وہ بھی شاعروں کی راہ پر چل پڑتے ہیں۔ آج کل کے کامیاب مقرر وہی سمجھے جاتے ہیں جو آدھے گویے اور آدھے قوال ہوں۔مقر ر کی اصل خصوصیت تو یہ ہے کہ سامعین کے دلوں میں وہ پیغام بٹھا دے جو وہ لے کر آیا ہے نہ یہ کہ واہ واہ اور تالیوں کی گڑگڑاہٹ میں مجمع سے داد وتحسین کے کلمات وصول کرے۔انتظامی اعتبار سے جلسوں پر جواخراجات آتے ہیں اور جس طرح جلسہ گاہوں کو سجایا سنوارا جاتا ہے وہ بالکل اس دور کے شادیوں کے پنڈال معلوم ہوتے ہیں۔ حیرت ہوتی ہے کہ جس اسٹیج پر کھڑے ہوکر مقررین شادی بیاہ کے بیجا اخراجات کو شیطانی عمل قرار دیتے ہیں اور اس کے لئے قرآن وحدیث سے شواہد ودلائل پیش کرتے ہیں وہ اسٹیج بذات خود طرح طرح کی آرائش وزیبائش کا نمونہ بناہوتاہے اور مقررین دولہا دولہن کی طرح سج سنور کر اسٹیج کی زینت کو چار چاند لگاتے ہیں۔ اس کے پیچھے قوم کا وہ سرمایہ خرچ ہوتاہے جو دین کی اشاعت و تبلیغ کے نام پر جمع کیا جاتاہے اور پھر اسے ایک رات میں خس وخاشاک کی طرح اڑا دیا جاتاہے۔ پنڈال پر لاکھوں کا خرچ، ساونڈ سسٹم پر لاکھوں کا خرچ اس کے علاوہ سامعین وشرکائے جلسہ کے لئے چائے پانی کا نظم اور رونق اسٹیج علماء، دانشواران، شعرا کی آمد ورفت پر لاکھوں کے اخراجات کرنے کے اور ان سب کے لئے مہینوں کی انتھک محنت اور جدو جہد کے بعد منتظمین جلسہ ذرا اس بات پر غور کریں کہ ان جلسوں میں جتنا پیسہ پانی کی طرح بہایا گیا کیا قوم وملت کو دینی اعتبار سے اتنا فائدہ ہوا۔

اگر لاکھوں روپیہ خرچ کرنے کے بعد ایک بھی مسلمان اپنے گناہوں سے تائب ہوکر راہ حق کی طرف گامزن ہوگیا تو میں سمجھتاہوں کہ پیسہ وصول ہوگیا اور اگر اس کے برعکس ہے تو یقینا یہ اخراجات ضائع ہوگئے ۔ یہ ایک لمحہ فکریہ ہے جس پر عوام وخواص سب کو سوچنے اور اس کے تدارک کے لئے بہترین لائحہ عمل تیار کرنے کی ضرورت ہے۔

 

 

متعلقہ خبریں

Back to top button