مضامین

شہریت چھوڑنے کا بڑھتا رجحان خطرناک؟

ذکی نور عظیم -لکھنؤ

وطن انسان کی مستقل رہائش گاہ، اس کی تعلیم و تربیت کا اولین مرکز، اس کی جائے پیدائش، اس کی نشو نما اور تعمیر و ترقی کاپہلا زینہ اور بیشترحالات میں اس کا مدفن ہونے کی وجہ سے بیحد عزیز ہوتا ہے اور بیشتر انسانوں کو اس سے بیحد لگاؤ اور محبت ہوتی ہے۔ یہ محبت زندگی کے کسی خاص مرحلہ کی محتاج یا اس کا تعلق اسباب و علل سے نہیں ہوتا بلکہ یہ خالص انسانی فطرت اور طبعی رجحان سے تعلق رکھتا ہے، اسی وجہ سےتقریبا ہر شخص کو اپنے وطن سے محبت اور اس کی ہر چیز سے اپنائیت اور لگاؤ ہوتا ہے، وہ اس کی ترقی اور خوشحالی کے لئے اپنی صلاحیتوں اور خدمات کو بروئےکار لانا اپنے لئے باعث فخر سمجھتا ہے۔ وہاں امن و سلامتی اور پیار ومحبت عام کرنے کے لئے کبھی صبر و ضبط کا مظاہرہ کرتا ہے تو کبھی ایثار و ترجیح کا مزاج اپناتا ہے، آپسی اور باہمی تعلقات کی خاطر بڑی سے بڑی قربانی کو خاطر میں نہیں لاتا اور اس کو اپنا ملکی اور سماجی ذمہ داری ہی نہیں بلکہ فطری اور طبعی فریضہ مانتا ہے ۔

 

وطن سے محبت چھوٹے بڑے امیر، غریب ، حکمراں و عوام غرض سماج کے ہر فرد کو ہوتی ہے۔ علوم اسلامی اور مذاہب و ادیان کا طالب علم ہونے کی وجہ سے میری نظر میں کائنات میں انبیاء کرام سے زیادہ برتر کوئی نہیں۔ جب ہم وطن کے نقطۂ نظر سے ان کی سیرت کا جائزہ لیتے ہیں تواندازہ ہوتا ہے کہ آپؐ کی وطن سے محبت کوئی ڈھکی چھپی اور معمولی نہیں۔ لہذا پہلی وحی کے بعد جب آپ کی بیوی حضرت خدیجہ آپ کو اپنے چچا زاد رشتہ دار ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں اور انہوں نے یہ خوش خبری دی کہ غار حرا میں آپ کے پاس آنے والے فرد سابقہ انبیاء اور حضرت موسی ؑ کے پاس آنے والے فرشتہ حضرت جبرئیل ہیں اور اپنی اس خواہش کا اظہار کیا کہ کاش میں اس وقت آپ کے ساتھ رہوں جب آپ کی قوم آپ کو نکال دے گی، یہ سنتے ہی آپؐ کو گہرا جھٹکا لگا اور وطن کی جدائیگی کے احساس کی وجہ سے ورقہ بن نوفل کے ساتھ رہنے کی خواہش اور پیشکش سے خوشی کےبجائے اس پر حیرت کا اظہار کیا کہ کیا میری قوم مجھے میرے وطن سے نکال دے گی؟ ۔

 

ہجرت کا اسلام میں بہت بڑا مقام اور رتبہ ہے اس کی وجہ سے سابقہ سارے گناہ معاف ہوجاتے ہیں اور دیگر بیشمار اجر و ثواب اور دینی و دنیوی مصالح و مفاد بھی اس سے وابستہ ہیں ۔ آپؐ نے اس وقت تک خود ہجرت کا سفر نہیں کیا جب تک اللہ تعالی کی طرف سے صراحتا مدینہ ہجرت کی اجازت نہیں مل گئی، لیکن اس سرزمین سے رخصت ہوتے ہوئے آپؐ کی زبان مبارک سے وطن سے محبت اور اس سے اپنائیت اور لگاؤ کا اظہار ان کلمات کے ذریعہ ہوا کہ’’ اے مکہ کی سرزمین! تو کتنی مقدس اور مجھے کتنی محبوب ہے اگر میری قوم نے مجھےیہاں سے نہ نکالا ہوتا تو میں تیرے علاوہ کہیں اور نہیں رہتا ‘‘ یعنی اپنے وطن میں ہر طرح کی آزمائش اور پریشانیوں اور اللہ کی جانب سے ہجرت کی اجازت اور حکم، اسی طرح اس پر بے شمار اجر و ثواب اور دینی و دنیوی فوائد و مصالح کے باوجود وطن کی جدائیگی میں آپ کی زبان سے وہ کلمات نکلے جو آپؐ کے انتہائی رنج و الم اور وطن سے بے حد محبت و اپنائیت کی عکاسی کرتے ہیں۔

 

میری نظر میں یہ تو دنیا کے سب سے عظیم شخصیت کا واقعہ تھا لیکن اگر اقوام عالم کا جائزہ لیا جائے تو شاید بیشتر لوگوں کو اپنے ملک اور وطن سے طبعی طور پر ایسا لگاؤ ہوتا ہے کہ وہاں سے جدائی کا تصور ایک بہت بڑا المیہ ہوتا ہے جہاں تک ہمارے وطن عزیز ہندوستان کا تعلق ہے تو یہاں کے باشندوں کو اپنے ملک سے بے انتہا محبت، تعلق اور اپنائیت ہوتی ہے، وہ اس کی خاطر بڑی سے بڑی قربانی کو معمولی سمجھتے ہیں اور اس کی ترقی و خوشحالی کے لئے ذاتی مفاد سے اوپر اٹھ کر ہر طرح کی ایثاروترجیح کا ثبوت دیتے رہتے ہیں۔

 

لیکن گذشتہ دنوں پارلیمنٹ میں پیش کردہ اس رپورٹ نے ملک سے محبت کے دعووں کو چیلنج کردیا جس میں یہ حقیقت سامنے آئی کہ پچھلے ۱۱ برسوں میں ہندوستان کی شہریت کو خیرباد کہہ کر دوسرے ممالک میں جا بسنے والے افراد کی تعداد 16لاکھ سے تجاوز کرگئی۔اور صرف 2022ء میں(2,25,620لاکھ) شہریوں نے دوسرے ممالک کی شہریت اختیارکی یعنی اوسطاً روزانہ 618 اور ہر گھنٹہ 26 لوگوں نے ہمیشہ کے لیےوطن عزیز کو خیرباد کہہ دیا، اور یہ کہ 2014 کے بعد اس میں نمایاں طور پر اضافہ ریکارڈ کیا جارہا ہے۔

 

سوال یہ ہے کہ جب کوئی بھی شخص خوشی سے اپنا وطن چھوڑنا نہیں چاہتا توآخرہندوستانی شہری اپنے وطن کی شہریت کیوں چھوڑ رہے ہیں؟ اس کے مختلف وجوہ ہوسکتے ہیں جن میں دوسرے ملکوں میں امن و سلامتی کا بہتر ماحول ، نوکری اورملازمت کے زیادہ مواقع ،وہاں بہتر سہولیات کی فراہمی ،زندگی کا معیار بلند ہونا۔ بہتر تعلیم اور اس میں اچھی کارکردگی ،ملازمت کیلئے ماحول اور تنخواہ کا اچھا ہونا، تعلیم کے بعد نوکری کے زیادہ مواقع وغیرہ وغیرہ۔

اسی طرح شہریت چھوڑنے کے پیچھے یہاں امن عامہ کی بگڑتی صورت حال، بڑھتی مہنگائی، تعلیم اور روزگار کے مواقع کی کمی، پاسپورٹ کی عالمی درجہ بندی میں69ویں مقام پر ہونا اور اس کی وجہ سے مختلف ممالک کے سفر میں کئی قسم کی دشواریاں، سیاسی، سماجی اور اقتصادی ماحول کا اچھا نہ ہونا، جرائم میں تیزی سے اضافہ ہونا وغیرہ وغیرہ بھی ہوسکتا ہے۔

 

جو بھی وجوہات ہوں حکومت کو وطن سے شہریوں کی دلچسپی کم ہونے پر سنجیدگی سے غور وفکر کرنا چاہیے،خاص طور پرپچھلے 22 سال سے اسرائیل میں مقیم سینیئر صحافی ہریندر مشرکی اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ ’’ میں انڈیا سے جذباتی طور پر اتنا جڑا ہوں کہ وہاں کی شہریت چھوڑنا نہیں چاہتا، لیکن اس کے علاوہ مجھےوہاں کی شہریت سےاور کوئی فائدہ نہیں‘‘، اسی طرح شہریوں کو بھی جلدی بازی میں شہریت چھوڑنے کے بجائے سوچ سمجھ کر قدم اُٹھانے کی ضرورت ہے۔

 

اس پس منظرمیں حکومت کو اپنے ان دعووں کا بھی جائزہ لینا چاہئے کہ این ڈی اے حکومت میں بھارت دنیا میں سب سے تیز رفتاری سے ترقی کرنے والا ملک بن گیا ہے، اس نے نہ صرف میکرو اقتصادی بنیادوں کو مضبوط کیا، بلکہ معیشت کو زیادہ تیز ی سے ترقی کر نے والی راہ پر گا مزن کیا ہے، بھارت کی جی۔ ڈی۔ پی کی شرح دنیا کی بڑی معیشتوں میں سب سے تیز تر شرحِ ترقی ہےاور یہ کہ اب بھارت کو برکس کے ترقی کے انجن کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، یہاں کے زر مبادلہ کے ذخائر میں اس قدر اضافہ ہوا ہےجو کسی بھی عالمی بحران کی صورت میں یہاں کے تحفظ کیلئے کافی ہے۔ مذکورہ بالا دعووں کی حقیقت کیا ہے؟کہ اس کےباوجود وطن کی شہریت چھوڑ نے کے لئےاس قدر بھگدڑ مچی ہوئی ہےحالانکہ ہر انسان کو اپنے وطن سے طبعی اور فطری محبت ہوتی ہے ۔

[email protected]

 

متعلقہ خبریں

Back to top button